مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4758
وعن جندب قال جاء أعرابي فأناخ راحلته ثم عقلها ثم دخل المسجد فصلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سلم أتى راحلته فأطلقها ثم ركب ثم نادى اللهم ارحمني ومحمدا ولا تشرك في رحمتنا أحدا . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتقولون هو أضل أم بعيره ؟ ألم تسمعوا إلى ما قال ؟ قالوا بلى ؟ . رواه أبو داود . وذكر حديث أبي هريرة كفى بالمرء كذبا في باب الاعتصام في الفصل الأول
خدا کی رحمت کو کسی کے لئے مخصوص ومحدود نہ کرو۔
اور حضرت جندب ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک دیہاتی شخص اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ اور آیا اس نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے پاؤں کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا پھر اس نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد اس پر سوار ہوا اور پھر اس نے بلند آواز سے اس طرح کہا کہ اللہ مجھ پر اور محمد پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہماری رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر رسول اللہ ﷺ نے اس کو اس طرح دعا مانگتے سنا تو صحابہ سے فرمایا کہ تم بتاسکتے ہو کہ یہ دیہاتی زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ کیا تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا ہے (صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ہم نے سنا ہے۔ (ابوداؤد) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کفی بالمرء کذبا الخ۔، باب الاعتصام میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
اس دیہاتی نے چونکہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو مخصوص و محدود کیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ گویا اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا لہذا معلوم ہوا کہ دعا میں اپنے مطلوب کو محدود و مخصوص نہ کرنا چاہیے یعنی یہ دعانہ مانگنی چاہیے کہ فلاں بات بس ہمارے لئے ہی ہے دوسرے کے لے نہ ہو بلکہ اس میں تمام مومنین و مومنات کو داخل کرنا چاہیے۔
Top