عار دلانے والے کے بارے میں وعید
اور حضرت خالد ابن معدان حضرت معاذ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے (یعنی اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے اور کوئی شخص اس کو شرم و غیرت دلاتا ہے اور سرزنش و ملامت کرتا ہے تو وہ عار دلانے مرنے سے پہلے خود بھی اس گناہ میں (کسی نہ کسی طرح ضرور) مبتلا ہوتا ہے آنحضرت ﷺ کی مراد اس گناہ سے تھی جس سے اس نے توبہ کرلی ہو، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ خالد نے حضرت معاذ ؓ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
تشریح
کسی مسلمان کا بتقاضائے بشریت کسی گناہ میں مبتلا ہوجانا اور پھر شرم و نادم ہو کر اس گناہ سے توبہ کرلینا اس کی سلامتی و طبع اور حسن ایمان کی علامت ہے اس صورت میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان اس کے اس گناہ پر شرم و غیرت دلائے اور اس کو سرزنش و ملامت کرے ہاں اگر اس نے توبہ نہیں کی اس گناہ سے اور اس گناہ میں مبتلا ہے تو پھر اس کو شرم و غیرت دلائی جاسکتی ہے اور سرزنش و ملامت بھی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کو شرم و غیرت دلانا سرزنش و ملامت کرنا بطریق تکبر و بقصد تحقیر نہ ہو بلکہ تنبیہ و نصیحت کے طور پر اس کو اس گناہ سے باز رکھنے کے قصد سے ہو۔ آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد کی یہ وضاحت آنحضرت ﷺ کی مراد اس سے گناہ تھی الخ۔۔ حضرت امام احمد حنبل سے منقول ہے اور یہ الفاظ اس روایت کے آخر میں نقل کئے جاتے ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو اگرچہ غریب کہا ہے اور اس میں کلام کیا ہے لیکن عراقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔