اپنے بڑوں کے سامنے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو۔
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں (ایک دن مجھے کیا سوجھی کہ) میں آنحضرت ﷺ سے یہ کہہ بیٹھی کہ صفیہ کے تئیں بس آپ کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں اس بات سے حضرت عائشہ ؓ کی مراد حضرت صفیہ ؓ کے قد کی کوتاہی کا ذکر کرنا تھا رسول اللہ ﷺ نے میری یہ بات سن کر آنحضرت ﷺ نے ناگواری کے ساتھ فرمایا تم نے اپنی زبان سے ایک ایسی بات نکالی ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملایا جائے تو بلاشبہ یہ بات دریا پر غالب آجائے (احمد، ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
حضرت صفیہ بن حیی ؓ بھی آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں ان کا قد چھوٹا تھا چناچہ ایک دن حضرت عائشہ ؓ نے چاہا کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت صفیہ ؓ کے اس عیب کا ذکر کریں اور اس طرح انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کئے ظاہر ہے کہ یہ غیبت تھی جس میں حضرت عائشہ ؓ مبتلا ہوئیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا ان پر یہ واضح کیا کہ تم نے جو بات کہی ہے وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ اگر بالفرض اس کو کسی دریا میں ملا دیا جائے تو دریا اس کے سامنے ہیچ ہوجائے اور یہ چند الفاظ اس دریا کی وسعت و عظمت کے باوجود اس پر غالب آجائیں اور اس کو متغیر کردیں اور جب ان الفاظ کے مقابلہ میں دریا کا یہ حال ہے تو سوچو کہ تمہارے اعمال کا کیا حشر ہوسکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے اس درجہ کے عیب کو بقصد حقارت بیان کرنا فلاں شخص کوتاہ قد ہے غیبت ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا کذ اکذا کے ذریعہ حضرت صفیہ ؓ کے بعض عیوب یعنی ان کے قد کی کو ہی کنایۃ بیان کرنا مقصود تھا جب کہ ایک شارح نے کہا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے ان الفاظ کذا کذا کے ذریعہ دراصل اپنی بالشت کی طرف اشارہ کیا کہ حضرت صفیہ ؓ تو گویا بالشت بھر کی ہیں، نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کذا کو مکرر لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا مقصد حضرت صفیہ ؓ کے اس عیب کو زبان اور اشارہ دونوں ذریعوں سے بیان کرنا تھا چناچہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے پہلے تو اپنی زبان سے کہا ہوگا کہ صفیہ ؓ ٹھگنی ہیں اور پھر اپنی بالشت کا اشارہ کر کے اپنی بات کو موکد کیا کہ وہ بہت ہی ٹھگنی ہیں ملا علی قاری نے اس طرح کی بات کی ہے۔