جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔
اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی بندہ کسی چیز یعنی کسی انسان یا غیر انسان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس لعنت پر بند کردیئے جاتے ہیں پھر وہ لعنت دائیں بائیں طرف جانا چاہتا ہے، چناچہ جب وہ کسی طرف بھی راستہ نہیں پاتی تو اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر وہ چیز اس لعنت کی اہل و سزا وار ہوتی ہے تو اس پر واقع ہوجاتی ہے ورنہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث کے ذریعہ لعنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ جس چیز کو لوگ بہت معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ہر کس وناکس پر لعنت کرتے رہتے ہیں انجام کار خود ہی اس لعنت کا شکار ہوجاتے ہیں چناچہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت ابتداء ہی سے اس پر متوجہ نہیں ہوتی اور یہ چاہتی ہے کہ ادھر ادھر سے ہو کر باہر نکل جائے مگر جب کسی طرف کو راستہ نہیں پاتی تو آخر کار اس پر متوجہ ہوتی بشرطیکہ وہ اس لعنت کا سزاو ار ہو اور اگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس لعنت کا سزا وار نہیں ہوتا تو پھر انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس شخص پر واقع ہوجاتی ہے جس نے وہ لعنت کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص لعنت کا واقعی مستوجب ہے اس پر لعنت نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص کا قابل لعنت ہونا شارع کی طرف سے بتائے بغیر متعین نہیں ہوسکتا۔