مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4740
وعن عقبة بن عامر قال لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت ما النجاة ؟ فقال أملك عليك لسانك وليسعك بيتك وابك على خطيئتك . رواه أحمد والترمذي
دنیا وآخرت نجات کے ذریعے
اور حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے اور اپنے گناہوں پر روؤ۔ (احمد، ترمذی)

تشریح
لفظ، املک، الف کے زبر اور لام کے زیر کے ساتھ ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق نے الف کے زیر کو ترجیح دی ہے اس جملہ کے ایک معنی شارخ نے یہ لکھے ہیں کہ اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور باتوں سے صاف رکھو جن میں خیرو بھلائی نہیں ہے لیکن اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ اپنی زبان کو بند رکھو کہ گویا تم اپنے تئیں اپنے امور کی نگہداشت رکھتے ہو۔ یعنی اپنے دین کے معاملہ میں محتاط و پرہیز گار اور اپنے حالات کوائف پر متوجہ ہونا ظاہر ہے کہ جب تم اپنے معاملات میں محتاط پرہیز گار ہو گے اور اپنے احوال و کوائف پر متوجہ رہ کر اپنی برائیوں اور بھلائیوں پر نظر رکھو گے تو راہ نجات تمہارے سامنے ہوگی۔ تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے کا مطلب یہ ہے کہ بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی خاطر یکسوئی اختیار کرو اپنے اپنے گھر سے اسی وقت باہر نکلو جب نکلنے کی ضرورت پیش آئے اور اس یکسوئی و گوشہ نشینی کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہو بلکہ اس کو غنیمت جانو کیونکہ یہ چیز بہت سے فتنہ فساد و برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ ہے اسی لئے کہا گیا ہے،، ھذا زمان السکوت وملازمۃ البیوت والقناعۃ بالقوہ الی ان تموت۔ طیبی کہتے ہیں کہ ویسعک بیتک میں حکم ظاہر مورد تو گھر ہے لیکن حقیقت میں اس حکم کا مورد مخاطب ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ مخاطب کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے گھر میں یکسوئی اور گوشہ نشینی اختیار کر کے مولیٰ کی عبادت میں مشغول رہو۔ اپنے گناہوں پر رونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خطاؤں اور اپنی تقصیرات پر نادم و شرمسار ہو کر طلب مغفرت کے لئے اللہ کے حضور گڑا گڑاؤ اور خشوع خضوع اختیار کرو اور اگر رونا نہ آئے تو کم سے کم رونے کی صورت بنا لو۔
Top