مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4739
وعن عبدالله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صمت نجا . رواه أحمد والترمذي والدارمي والبيهقي في شعب الإيمان
ایک چپ لاکھ بلا ٹالتی ہے
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (احمد، ترمذی، دارمی، بہیقی)۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ چپ رہ کر اور زبان کو بری باتوں سے محفوظ رکھ کر دنیا کی بہت سی آفتوں سے نجات مل جاتی ہے اور دینی و اخروی طور پر بھی بہت سی بلاؤں اور نقصان و خسران سے نجات حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ انسان عام طور پر جن بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے اکثر زبان ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں۔ کلام کی قسمیں امام غزالی نے لکھا ہے کہ انسان اپنی زبان سے جو بات نکالتا ہے اور جو کلام کرتا ہے اس کی چار قسمیں ہیں۔ ایک تو محض نقصان، دوسرے محض نفع، تیسرے وہ بات اور کلام جس میں نہ نفع ہوتا ہو اور نہ نقصان ہوتا ہو اور چوتھے وہ بات و کلام جس میں نفع بھی اور نقصان بھی اس سے خاموشی ہی اختیار کرنا چاہے کیونکہ نقصان سے بچنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور وہ کلام کہ جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان تو ظاہر ہے کہ اس میں زبان کو مشغول کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے اور یہ چیز بھی خالص ٹوٹا رہے ہی دوسری قسم یعنی وہ کلام جس میں نفع ہی نفع ہو تو اگرچہ ایسی بات و کلام میں زبان کو مشغول کرنا برائی کی بات نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں بھی ابتلائے آفت کا خطرہ ضرور ہوتا ہے بایں طور کہ ایسے کلام میں بسا اوقات ریاء و تصنع، خوشنودی نفس اور فضول باتوں کی آمیزش ہوجاتی ہے اور اس صورت میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کہاں لغزش ہوگئی ہے۔ حاصل یہ کہ ہر حالت اور ہر صورت میں خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں ان گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل الاّ یہ کہ زبان کو ہی بند رکھا جائے کسی نے خوب کہا ہے، اللسان جسمہ صغیر وجرمہ کبیر وکثیر زبان کا جثہ تو چھوٹا ہے مگر اس کے پاپ بڑے اور بہت ہیں۔
Top