مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4737
وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قا ل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ويل لمن يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ويل له . رواه أحمد والترمذي وأبو داود والدارمي
جھوٹے لطیفوں کے ذریعہ لوگوں کو ہنسانے والے کے بارے میں وعید
بہز ابن حکیم اپنے والد (حکیم ابن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن عبدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افسوس اس شخص پر جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے، افسوس اس شخص پر افسوس اس شخص پر۔ (احمد، ابوداؤد، دارمی)

تشریح
ویل کے معنی ہیں عظیم ہلاکت اور ویل دوزخ کی ایک گہری وادی کا نام بھی ہے جس میں اگر پہاڑ ڈال دیئے جائیں تو گرمی سے گل جائیں اہل عرب کے کلام میں یہ لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی برائی اور ناپسندیدہ امر کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کے تئیں اظہار تاسف اور اس کو متنبہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا اپنے ارشاد کے آخر میں مذکورہ لفظ کو پھر استعمال کرنا اور مکرر استعمال کرنا گویا ایسے شخص کے حق میں زجر وعید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا مقصود تھا جو بےبنیاد باتوں اور جھوٹے لطائف و قصص کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے۔ ویل لمن یحدث فیکذب، میں لفظ یکذب (جھوٹ بولنے کی قید سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ہم جلیسوں اور یاروں اور دوستوں کو خوش کرنے اور ان کو ہنسانے کے لئے ایسی بات کرے یا ایسے لطیفے اور قصے سنائے جو سچے ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ یہ ضروری ہے کہ اس کو اپنی عادت نہ بنائے اور نہ لطیفہ گوئی کو بطور پیشہ اختیار کرے کیونکہ خوش طبعی و بذلہ سخی جو جھوٹ پر مبنی نہ ہو، باوجودیکہ مشروع و مسنون ہے لیکن اس کو کبھی کبھار ہی اختیار کیا جائے نہ کہ ہمیشگی کے ساتھ اس طرح ہر وقت لوگوں کو ہنسانے اور مسخرا پن کرنے ہی میں نہ لگا رہے اور نہ اس پر زیادہ توجہ دے کیونکہ اس کا مال کار نقصان و خسران کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ اگلی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔
Top