مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4735
وعنن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتدرون ما أكثر ما يدخل الناس الجنة ؟ تقوى الله وحسن الخلق . أتدرون ما أكثر ما يدخل الناس النار ؟ الأجوفان الفم والفرج رواه الترمذي وابن ماجه
جنت اور دوزخ لے جانے والی چیزیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جنت میں داخل کرتی ہے؟ وہ تقوی یعنی اللہ سے ڈرنا اور حسن خلق ہے اور جانتے ہو لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جہنم میں لے جاتی ہے؟ وہ کھوکھلی چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)۔

تشریح
تقوی کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شرک سے اجتناب کیا جائے اور سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ دل میں اللہ کے علاوہ کسی بات کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔ حسن خلق سے مراد مخلوق اللہ کے ساتھ خوش خلقی اختیار کرنا ہے جس کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کسی مخلوق کو کوئی تکلفی و ایذا نہ پہنچائی جائے اور سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان اس شخص کے ساتھ بھلائی کرے جس نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس اعتبار سے حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہوگا کہ جس شخص میں تقوی اور حسن خلق یہ دونوں اوصاف پیدا ہوجائیں تو سمجھو کہ اس کی نجات کا دروازہ کھل گیا کیونکہ تقوی یعنی پرہیزگاری سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور خوش خلقی سے مخلوق کی خوشی ملتی ہے اور ظاہر ہے جس انسان سے اللہ بھی خوش ہو اور مخلوق اللہ بھی تو اس کا بیڑا پار ہونے میں کیا شبہ رہ جائے گا۔ حضرت شیخ عبدالحق نے لکھا ہے کہ خوش خلقی بھی تقوی میں داخل ہے لہذا حدیث میں تقوی کے بعد پھر خوش خلقی کا ذکر کرنا تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہے مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقوی سے تو ظاہری اعمال کا حسن مراد ہے اور حسن خلقی سے باطنی احوال کا حسن۔ طیبی یہ کہتے ہیں کہ تقوی کے ذریعہ تو اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خالق اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن معاملہ کرے بایں طور کہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے اور ہر اس چیز پر عمل کرے جس کا حکم دیا ہے اور حسن خلق کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مخلوق اللہ کے ساتھ حسن معاملہ کرے یعنی خوش خلقی اختیار کرے۔ حدیث کے دوسرے بڑے جز میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ منہ اور شرم گاہ کے دو بڑے سر چشمے ہیں جن سے پیدا ہونے والی برائیوں میں پڑ کر انسان دوزخ میں جا گرتا ہے چناچہ منہ کہ اس میں زبان بھی داخل ہے گمراہی اور بد عملیوں کا بڑا ذریعہ ہے انسان جو بھی حرام چیز کھاتا ہے اور پیتا ہے اسی کے منہ کے ذریعہ نگلتا اور وہ جو بھی ممنوع و ناجائز بیہودہ و فحش اور لاطائل کلام و گفتگو کرتا ہے زبان ہی اس کا ذریعہ بنتی ہے اس طرح شرمگاہ خواہ عورت کی یا مرد کی شیطان کا سب سے دل فریب جال ہے جس میں وہ لوگوں کو پھنسا کر دوزخ میں گرا دیتا ہے چناچہ انسان اسی شرمگاہ کے سبب جنسی جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور نفسانی شہوت میں مبتلا ہو کر اپنے خالق کی نافرمانی کرتا ہے۔
Top