مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4734
عن أنس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ترك الكذب وهو باطل بني له في ربض الجنة ومن ترك المراء وهو محق بني له في وسط الجنة ومن حسن خلقه بني له في أعلاها . رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن . وكذا في شرح السنة وفي المصابيح قال غريب
جھوٹ اور مخاصمت کو ترک کرنے والے اور اخلاق و اطوار کو اچھا بنانے والے کا ذکر
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ جھوٹ ناحق و ناروا ہو تو اس کے لئے جنت کے کنارے پر محل بنایا جاتا ہے اور جو شخص جھگڑے اور بحث و تکرار چھوڑ دے باوجودیکہ وہ حق پر ہو اس کے لئے جنت کی بلند جگہ پر محل بنایا جاتا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اسی طرح کی روایت شرح السنۃ اور مصابیح میں منقول ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث میں ان تین طرح کے لوگوں کا ذکر ہے جن کو جنت میں نمایاں مقامات پر رکھا جائے گا ایک طرح کے لوگ وہ ہیں جو جھوٹ بولنا بالکل ترک کردیں اس موقع پر ناحق کی قید لگائی گئی ہے یعنی ایسا جھوٹ جو بالکل ناروا اور ناجائز ہوتا ہے اس قید کی وجہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے جیسے جنگ کی حالت میں بشرطیکہ اس جھوٹ کی وجہ سے کسی طرح کی عہد شکنی نہ ہوئی ہو یا لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کی خاطر اور کسی مسلمان کا ایسا مال بچانے کے لئے جو ناروا طور پر اپنے مالک کے ہاتھ سے جارہا ہو اور یا دو بیویاں رکھنے کی صورت میں یعنی اگر کسی شخص کے ہاں دو بیویاں ہوں تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ہر ایک بیوی کا دل خوش کرنے کے لئے ہر ایک سے یوں کہے کہ میں تمہیں زیادہ چاہتا ہوں اور بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک ہی بیوی ہونے کی صورت میں بھی اس وقت جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے کہ جب وہ بیوی کا دل خوش کرنے کے لئے اس سے یوں کہے کہ میں تمہیں یہ دوں گا وہ دوں گا یہ بنا دوں گا وہ لا دوں گا۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو حق پر ہونے کے باجود تواضع کسر نفسی اور شرافت نفس کی بناء پر مخاصمت و نزاع اور بحث و تکرار سے اپنا دامن بچاتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دنیاوی معاملہ سے ہو اس میں سکوت و اجتناب کرنے سے دین میں کوئی خلل نہ پڑے، ہاں اگر کسی مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دینی معاملہ سے تو اس سے اس وقت تک کنارہ کشی اختیار کرنا مناسب نہیں ہوگا جب تک وہ معاملہ نپٹ نہ جائے اور حق ظاہر نہ ہوجائے! حضرت امام شافعی سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی دینی معاملہ میں کوئی بحث و مناظرہ اس مقصد کے علاوہ اور کسی وجہ سے نہیں کیا کہ میں چاہتا تھا میں سچائی کو ثابت کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوں اور حق میرے مقابل کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ مذکورہ بالا سلسلے میں حضرت امام حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مراء یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار کو اختیار کرنے کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے کلام اور اس کی بات پر اعتراض وارد کرے، بایں طور کہ یا تو اس کے الفاظ میں خلل و نقصان کو ظاہر کرے یا اس کے مضمون و معنی میں غلطی نکالنے اور یا متکلم کے مقصد و مراد کو نادرست قرار دے اس کے برخلاف ترک مراد یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار سے اجتناب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے کلام و قول پر کوئی اعتراض وارد نہ کرے لہذا انسان کو چاہیے کہ جب وہ کلام و بات سنے تو اگر وہ حق ہو تو اس کی تصدیق کرے اور اگر وہ باطل و بےبنیاد ہو اور اس کا تعلق کسی دینی معاملہ سے نہ ہو تو اس سے سکوت اختیار کرلے۔ تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق اچھا بناتے ہیں۔ واضح رہے کہ حسن اخلاق یوں تو تمام ہی اچھے اوصاف و کمالات کو اختیار کرنے کا نام ہے لیکن معاشرہ میں عام طور پر حسن اخلاق کا اطلاق، خندہ پیشانی، کشادہ روئی، نرم گوئی اور حسن معاشرت پر ہوتا ہے۔
Top