مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4726
وعن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا . وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا . متفق عليه . وفي رواية مسلم قال إن الصدق بر وإن البر يهدي إلى الجنة . وإن الكذب فجور وإن الفجور يهدي إلى النار . ( متفق عليه )
سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تاکید
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکوکاری کی طرف لیجاتا ہے یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نیکوکاری نیکوکار کو جنت کے اعلی درجات تک پہنچاتی ہے اور یاد رکھو! جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق وفجور وفاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو! جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ سچ بولنا نیکی اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنافسق وفجور ہے اور فسق وفجور، دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے۔

تشریح
۔ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وصف صدیقیت کا حامل اور مقام صدیقیت پر فائز قرار دیا جاتا ہے اور اس اونچے درجے کے وصف ومقام کے اجروثواب کا مستحق گردانا جاتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ملاء اعلی کے پاس جس کتاب میں تمام بندوں کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اس میں مذکورہ شخص کا نام صدیق لکھا جاتا ہے اور یا یہ کہ دنیا میں لوگ ایسے شخص کو اپنی کتابوں اور قلم پاروں میں صدیق کے نام سے لکھتے اور یاد کرتے ہیں اس صورت میں اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ایسا شخص اللہ کی طرف سے لوگوں میں انتہائی معزز ومکرم ظاہر کیا جاتا ہے لوگوں کے دلوں پر اس شخص کا لقب صدیق القا کیا جاتا ہے اور ان کی زبانوں پر اسی کے اس لقب و صفت کو جاری کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کو سچا صادق سمجھتے ہیں اور اس کی سچائی و صداقت میں رطب اللسان رہتے ہیں، اس مفہوم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان الذین آمنوا وعملوالصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کئے اللہ تعالیٰ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا۔ اسی طرح اللہ کے نزدیک کذاب لکھا جاتا ہے کا مطلب بھی یا تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے شخص کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور اس کے لئے وہ سزا مقرر کردی جاتی ہے جو جھوٹوں کے لئے مخصوص ہے یا یہ کہ اس شخص کے بارے میں لوگوں کی نظروں اور دلوں میں یہ بات ظاہر و راسخ کردی جاتی ہے کہ یہ شخص انتہائی ناقابل اعتبار ہے اس طرح گویا اس کو جھوٹا مشہور کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گرجاتا ہے اور ہر شخص اس سے بغض ونفرت کرنے لگتا ہے۔
Top