مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4723
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال الرجل هلك الناس فهو أهلكهم . رواه مسلم . ( متفق عليه )
کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی آگ کے مستوجب ہوگئے تو اس طرح کہنے والاسب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ (مسلم)

تشریح
۔ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں، کو ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا دیکھے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں تو ان کی اس حالت پر حسرت و افسوس کا ہونا اور غم خواری کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر بھی ہے اور اخوت اسلامی کا تقاضا بھی اب اگر وہ شخص اسی حسرت و افسوس اور غم خواری کے جذبات کے تحت ان لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک ہوگئے یعنی ان لوگوں نے ایسے عقائد و اعمال کو اختیار کرلیا ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں دھکیل کر رہیں گے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس شخص کا یہ کہنا دراصل ان لوگوں کے تئیں ہمدردی وغم خواری کا مظہر ہوگا اور اس کا مطلب یہی سمجھاجائے گا کہ وہ شخص ان لوگوں کے برے احوال سے دل شکستہ ہے اور اس کا قلبی جذبہ یہ ہے کہ کاش وہ لوگ اس حالت میں مبتلا ہو کر اخروی ہلاکت و تباہی کے راستہ کو اختیار نہ کرتے اور جب وہ اس راہ پر پڑگئے ہیں تو اے کاش اب بھی ان کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ ابدی ہلاکت و تباہی کے خوف سے راہ راست پر لگ جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جذبات ہمدردی وغم خواری کے برعکس محض عیب جوئی حقارت اور ان لوگوں کو رحمت الٰہی سے مایوس کرنے کے لئے اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو یہ سخت برا ہوگا اور اس طرح کہنے والا شخص خود سب سے زیادہ ہلاکت و تباہی میں پڑے گا کیوں کہ اس کے ان الفاظ سے یہ سمجھاجائے گا کہ وہ اپنے نفس کی برائی اور اپنے اعمال کے غرور وتکبر میں مبتلا ہوگیا ہے دوسرے لوگوں کو چشم حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کو حق تعالیٰ کی رحمت سے ناامید کرتا ہے یہ مطلب اس صورت میں ہوگا کہ جب کہ لفظ اھلکم کاف کے پیش کے ساتھ یعنی بصیغہ تفضیل ہو اور اگر یہ لفظ کاف کے زیر کے ساتھ یعنی بصیغہ ماضی ہو جیسا کہ بعض روایتوں میں نقل کیا گیا ہے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ اس طرح کہنے والا ان کو ہلاک و برباد کردیتا ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی شخص اپنے مشاہدہ کے مطابق بدعملیوں میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک و برباد ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر ترک طاعت و عبادت اور ارتکاب معصیت و گناہ میں اور زیادہ مشغول ومنہمک ہوجاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ ان گناہ گاروں کو شکستہ دل، ناامید اور بےشوق بنادیتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے گویا دنیا ہی میں اللہ کے قہر و جلال میں گرفتار ہوئے ہیں اسی لئے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ بدعملیوں کی راہ اختیار کئے ہوئے ہوں اور معصیت کے اندھیروں نے جن کو گھیر رکھا ہو انہیں نہایت نرمی وملائمت اور شفقت و محبت کے ساتھ تذکیرونصیحت کی جانی چاہیے اور ان پر سختی وتشدد کرنا ان کے حق میں سخت برا بن جاتا ہے اور وہ ضد ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے راہ راست پر آنے کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا جو شخص ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور انہیں ہلاکت و بربادی کی خبر دیتا ہے وہ گویا انہیں ہلاکت و بربادی میں ڈالنے کا خود موجب بنتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد گرامی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ گاروں کو بھی مغفرت کی بشارت دینا چاہیے ان کے قلب وذہن کو دین و ایمان پر پختہ کرنا چاہیے اور انہیں رحمت الٰہی کا امیدوار و طلبگار بنانا چاہیے۔
Top