مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4702
وعن عبدالله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله يبغض البليغ من الرجال الذي يتخلل بلسانه كما يتخلل الباقرة بلسانها . رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي هذا حديث غريب
زبان دراز اور چکنی چپڑی باتیں کرنے والا اللہ کا ناپسندیدہ ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام وبیان میں حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرے بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارے کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان سے کھاتی ہیں اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
۔ مطلب یہ ہے کہ زبان درازی اور طاقت نسائی کوئی اچھی چیز نہیں ہے اپنی زبان اور کلام میں خواہ مخواہ کے لئے حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرنا، حاشیہ آرائی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا اور الفاظ کو چباچباکر اور زبان کو لپیٹ لپیٹ کر چکنی چپٹی باتیں کرنا احمق لوگ کے نزدیک تو ایک وصف سمجھا جاتا ہے لیکن جو دانش مند اور عاقل لوگ اس وصف کے پیچھے چھپی ہوئی برائی کو دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس طرح باتیں بنانے والے لوگ جھوٹے اور حیلہ باز ہوتے ہیں ان کے نزدیک اس وصف کا کوئی اعتبار نہیں اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسا شخص اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے لہذا چھا کلام وہی ہے جو ضرورت کے بقدر اور سیدھا سادا ہو نیز جس سے یہ واضح ہو کہ متکلم کے ظاہری الفاظ، اس کی باطنی کیفیات کے ہم آہنگ ہیں جو شریعت کا تقاضا بھی ہے۔
Top