مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4680
وعن أبي مسعود الأنصاري قال لأبي عبد الله أو قال أبو عبد الله لأبي مسعود ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في ( زعموا ) قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بئس مطية الرجل . رواه أبو داود وقال إن أبا عبد الله حذيفة
لفظ" زعموا " کی برائی
اور حضرت ابوسعید انصاری ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ سے یا حضرت ابوعبداللہ نے حضرت ابومسعود انصاری ؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو لفظ زعموا کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ مرد کی بری سواری ہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ابوعبداللہ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کی کنیت ہے جو اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں۔

تشریح
زعموا زاء ل، میں زعم سے مشتق ہے، زعم، یا زعم، زاء کے پیش اور زیر کے ساتھ کے معنی تقریبا وہی ہیں جو ظن و گمان کے ہوتے ہیں جیسا کہ نہایہ میں لکھا ہے صراح میں یہ لکھا ہے کہ زعم کے معنی ہیں کہنا اور عام طور پر زعم کا اطلاق اس بات پر ہوتا ہے کہ جو غیر صحیح اور قابل اعتماد ہو اور قاموس میں لکھا ہے کہ، زعم، یا زعم، کے معنی قول کے ہیں اور اس کا اطلاق اکثر بےبنیاد اور جھوٹی بات پر ہوتا ہے۔ لفظ زعموا کے بارے میں علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کا جو یہ محمول ہے کہ جب انہیں کسی بےبنیاد بات کو بیان کرتا ہوتا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں یا لکھتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے ہیں فلاں شخص کے متعلق یہ سنا گیا ہے اور یا لوگ اس طرح کہہ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور جھٹلائے جانے کے خوف سے کسی شخص کا نام لے کر تو کہا نہیں جاتا کہ یہ بات فلاں نے کہی ہے یا فلاں شخص نے بیان کیا ہے بلکہ لوگ کہتے ہیں یا بیان کیا جاتا ہے پردہ میں بےتحاشہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور بلا تحقیق و بےبنیاد باتوں کو پھیلایا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالا دونوں صحابہ میں سے ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ آدمی جو لفظ زعمو یعنی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ذریعہ بےبنیاد اور غیر تحقیقی باتیں نقل کرتے ہیں تو کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے اس لفظ کے بارے میں سنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس لفظ تحقیق میں اس لفظ کے استعمال اور اس کے مفہوم کے بارے میں کیا فرماتے تھے؟ دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ بری سواری ہے۔ یعنی آپنے اس لفظ کو سواری کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کوئی شخص سواری پر بیٹھ کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اسی طرح جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ کسی بےبنیاد اور غیر تحقیقی بات کو دوسروں کے سامنے نقل کرے اور پھیلائے تو وہ اپنی گفتگو اور اپنے قول کے شروع میں لفظ زعموا استعمال کرتا ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اپنی غرض حاصل کرنا چاہتا ہے نیز آپ نے بری سواری کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ لفظ زعموا کوئی اچھا آغاز کلام نہیں ہے کیونکہ اس لفظ کو بنیاد بنا کر جو بات کہی جاتی یا نقل کی جاتی ہے جو کوئی سند اور ثبوت نہ رکھے بلکہ ایک حکایت کے درجہ میں ہو اور برسبیل ظن و گمان زبان پر آئے۔ لہذا اس کا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ نقل وبیان اور روایات و حکایات کے سلسلے میں پوری احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کیونکہ وہ باتیں جن کا تعلق محض ظن و گمان سے ہوتا ہے عام طور پر غلط فہمی اور جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ و زعموا مطیہ الکذب لفظ زعموا جھوٹ کی سواری ہے۔ یا آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد کا مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کوئی شخص بلا تحقیق و یقین کسی کی طرف زعم و گمان یعنی دروغ گوئی کی نسبت نہ کرے ہاں اگر اس کو اس بات کا یقین ہو کہ فلاں شخص نے واقعتا دروغ گوئی کی ہے اور یہ کہ اس شخص کی دروغ گوئی کے نقصان و اثرات سے دوسروں کا بچانا ضروری ہے تاکہ کوئی دھوکا نہ کھائے تو اس مصلحت کے پیش نظر کسی کی طرف زعم و گمان کی نسبت کرنا جائز ہوگا جیسا کہ محدثین وغیرہ کرتے ہیں۔
Top