مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4665
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقولن أحدكم عبدي وأمتي كلكم عباد الله وكل نسائكم إماء الله . ولكن ليقل غلامي وجاريتي وفتاي وفتاتي . ولا يقل العبد ربي ولكن ليقل سيدي وفي رواية ليقل سيدي ومولاي . وفي رواية لا يقل العبد لسيده مولاي فإن مولاكم الله . رواه مسلم .
اپنے غلام اور باندی کو میرا بندہ یا میری بندی نہ کہو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام اور باندی کو عبدی میرا بندہ اور امتی میری لونڈی نہ کہے تمہارے سب مرد اللہ کے بندے اور تمہاری سب عورتیں اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے میرا غلام یعنی میرا لڑکا اور میری جاریہ یعنی میری لڑکی، یا میرا خادم اور میری خادمہ اسی طرح کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہنا چاہیے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ کوئی اپنے غلام کو اپنے مالک کو میرا مولیٰ نہ کہے کیونکہ تمہارا مولیٰ صرف اللہ ہے۔ (مسلم)

تشریح
جب غلام اور باندی رکھنے کا رواج تھا تو لوگ ان کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد اور مخاطب کیا کرتے تھے جو اپنے معنی کے اعتبار سے بالکل غیر موزوں ہوتے تھے، مثلا زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جب اپنے غلام یا اپنی باندی کو مخاطب کرتے تو اس طرح کہتے، یا عبدی اے میرے بندے اور یا امتی، یعنی اے میری لونڈی، ظاہر ہے کہ لفظ عبد ایک مخصوص مفہوم کا حامل ہے اور اسلامی عقیدے کے مطابق انسان اللہ ہی کا عبد بندہ ہے اور ہوسکتا ہے ایک دوسرے انسان کا بندہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عبد یا بندہ عبادت کرنے والے کو کہتے ہیں اور عبادت صرف اللہ ہی کی ہوسکتی ہے کسی مخلوق کی نہیں، اس اعتبار سے اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا عبد یعنی بندہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر وہ یا تو حقیقت عبدیت میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے یا شرک کا مرتکب نہ سہی ارتکاب شرک کے گمان کا سبب بن رہا ہے لہذا آپ نے اس لفظ کو استعمال کرنے سے منع فرمایا اسی طرح قاموس کے مطابق لفظ امتہ کے معنی مملوکہ کے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی بھی انسان کی حقیقی ملکیت صرف اللہ کو حاصل ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ملکیت کا دعوی کرے لہذا آپ نے اس لفظ کو بھی استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ جن الفاظ کے ذریعہ غلام و باندی کو یاد اور مخاطب کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سے غلام کے معنی لڑکے کے ہیں جاریہ کے معنی لڑکی کے ہیں، فتی کے معنی جوان مرد اور فتاۃ کے معنی جوان عورت کے ہیں ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے استعمال میں نہ صرف یہ کہ مفہوم کے اعتبار سے کوئی غیر موزونیت نہیں ہے بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک طرح سے غلام و باندی کے تئیں شفقت و محبت اور یگانگت و رواداری کے جذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے رہی یہ بات کہ فتی اور فتاۃ جوان مرد اور جوان عورت کو کہتے ہیں تو ان الفاظ کا اطلاق ان غلام اور باندی پر کیسے ہوگا جو عمر رسیدہ اور بوڑھے ہوں تو اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ غلام اور باندی خواہ وہ کتنے ہی بوڑھے ہوں عام طور پر ان کے آقا اور مالک ان کے ساتھ چھوٹوں اور جوانوں ہی کا سا معاملہ رکھتے تھے اور ان کو بڑھاپے کا وہ لحاظ و احترام نہیں کرتے تھے جو ان کی عمر کے دوسرے لوگوں یعنی آزاد بڑھیوں کا ہوتا تھا علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدمت گاری اور کام کاج کے سلسلے میں چونکہ بوڑھے غلام و باندی بھی جوانوں جیسی مستعدی اور چستی رکھتے تھے اس لئے ان کو بھی فتی اور فتاۃ کہا جاتا تھا۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنے غلام اور باندی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرنا ہی ہو جوان کی حثییت و رتبہ کو واضح کرسکیں تو اس مقصد کے لئے عبد اور امتہ سے بہتر مذکورہ الفاظ ہیں تاہم علماء نے یہ لکھا ہے کہ عبد اور امتہ کے الفاظ کے استعمال کی اس ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے جب کہ اپنے غرور وتکبر کے اظہار اور باندی کو حقیر و ذلیل جاننے کے طور پر ہو، ورنہ غلام و باندی پر لفظ عبد اور امتہ کا اطلاق خود قرآن و حدیث میں منقول ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (والصالحین من عبادکم ومائکم) اور آیت (ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شئی)، اس طرح بہت احادیث میں بھی غلام اور باندی کو لفظ عبد اور امتہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح مالکوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے غلام و باندی کو ناشائستہ اور غیر موزوں الفاظ کے ذریعہ مخاطب نہ کریں چناچہ فرمایا گیا کہ کوئی غلام و باندی اپنے آقا کو ربی میرا رب نہ کہے کیوں کہ اگرچہ رب کے معنی تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں اور ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ایک آقا کو اپنے غلام و باندی کا تربیت و پرورش کرنے والا کہا جاسکتا ہے لیکن ربوبیت علی الاطلاق ایک ایسی خاص صفت ہے جو صرف اللہ کی ذات سے متعلق ہے لہذا کسی انسان کو رب کہنا شرک کے گمان کا باعث ہے لیکن واضح رہے کہ اس ممانعت کا تعلق بھی اس صورت سے ہے جب کہ اس لفظ کے استعمال کا مقصد اپنے مالک کی تعظیم ہو، ورنہ مالک پر لفظ رب کا اطلاق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا، اذکرنی عند ربک، غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں جس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ سید ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مالک کو اپنے غلام باندی پر سیادت و فضیلت اور امارت و ریاست حاصل ہوتی ہے اس اعتبار سے غلام و باندی کا اپنے مالک کو یا سیدی یعنی اے میرے سردار یا اے میرے آقا کہہ کر مخاطب کرنا موزوں و مناسب ہے۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں تو غلام و باندی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مالک کو مولیٰ کہیں لیکن دوسری روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کوئی غلام و باندی اپنے مالک کو مولیٰ نہ کہے ان دونوں روایتوں کے درمیان پائے جانے والے ظاہری تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے کہ مولیٰ کے کئی معنی آتے ہیں جیسے متصرف، و منتظم، ناصر اور معین وغیرہ چناچہ غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں، مولی، کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت و جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ وہ اس کے معنی مراد نہ لیں جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ہاں جس معنی کا اطلاق بندوں کی ذات پر بھی ہوسکتا ہے جیسے متصرف، منتظم تو ان معنی کو مراد لیتے ہوئے مالک کے لئے لفظ مولیٰ کا استعمال کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مولیٰ کا اطلاق معتق اور معتق پر کیا جاتا ہے، جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مولیٰ القوم من انفسھم یا طبری کی روایت میں ہے مولیٰ الرجل اخوہ اور مالک کو مولیٰ کہنے کی ممانعت و عدم جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے معنی وہ مراد لئے جائیں جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ناصر اور معین وغیرہ کیونکہ ان کے معنی کے اعتبار سے مولیٰ کے حقیقی معنی صرف حق تعالیٰ ہے جیسا کہ یہ فرمایا گیا نعم المولی و نعم النصیر، اس تا کی روشنی میں دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہا حاصل یہ کہ اس مسئلے میں وہی ضابطہ پیش نظر رہے گا جو پہلے گزر چکا کہ اگر لفظ مولیٰ کا استعمال غایت تعظیم کے طور پر ہو تو ممانعت کا حکم نافذ ہوگا ورنہ بصورت دیگر اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
Top