مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4638
وعن أنس قال عطس رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم فشمت أحدهما ولم يشمت الآخر . فقال الرجل يا رسول الله شمت هذا ولم تشمتني قال إن هذا حمد الله ولم تحمد الله . متفق عليه .
جو چھینکنے والا الحمد للہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو چھینک آئی آنحضرت ﷺ نے ان میں سے ایک آدمی کی چھینک کا جواب نہیں دیا جس آدمی کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کو تو جواب دیا لیکن مجھے جواب نہیں دیا؟ آپ نے فرمایا اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی تھی جب کہ تم نے اللہ کی حمد نہیں کی (لہذا تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے) بخاری ومسلم)۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص چھینکنے کے بعد الحمد للہ نہ کہے وہ اس بات کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جائے۔ حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے مسجد کے کسی کونے میں چھینکا، حضرت ابن عمر ؓ نے اس چھینک کو سنا تو فرمایا کہ یرحمک اللہ ان کنت حمدت اللہ یعنی اگر تو نے اللہ کی حمد کی ہے تو تجھ پر اللہ اپنی رحمت نازل کرے۔ شعبی کہتے ہیں کہ اگر تمہارے کان میں دیوار کے پیچھے سے کسی چھینکنے اور الحمدللہ کہنے کی آواز آئے تو اس کو بھی جواب دو یعنی یرحمک اللہ کہو۔
Top