مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4582
وعن أنس قال قال رجل يا رسول الله الرجل منا يلقى أخاه أو صديقه أينحني له ؟ قال لا . قال أفيلتزمه ويقبله ؟ قال لا . قال أفيأخذ بيده ويصافحه ؟ قال نعم . رواه الترمذي .
سلام کے وقت جھکنا ممنوع ہے۔
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے؟ آپ نے فرمایا نہیں اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے وقت جھکنا، جیسا کہ کچھ لوگوں کا معمول ہے اور بعض جگہوں پر اس کا رواج ہے، خلاف سنت ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کو اس بنا پر ناپسند فرمایا کہ یہ چیز رکوع کے حکم میں ہے اور رکوع اللہ کی عبادت ہے۔ یحییٰ نے محی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ سلام کے وقت پیٹھ جھکانا مکروہ ہے کیوں کہ اس کی ممانعت میں صحیح حدیث منقول ہے اور اگرچہ بعض اہل علم و صلاح نے اس کو اختیار کیا ہے لیکن ان کا فعل ہرگز قابل اعتبار و اعتماد نہیں ہے۔ مطالب المومنین میں حضرت شیخ ابومنصور ماتریدی سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے سامنے زمین بوسی کرے یا اس کے آگے پیٹھ جھکائے تو اس کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا البتہ گناہگار ہوگا کیونکہ کسی کے آگے زمین بوسی کرنا یا جھکنا تعظیم کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ عبادت کی نیت سے ( اگر کوئی شخص عبادت کی نیت سے اس طرح کا فعل کرے گا تو وہ یقینا کافر ہوجائے گا)۔ بعض مشائخ نے اس فعل جھکنے کی ممانعت کو بڑی شدت اور سختی کے ساتھ بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کاد الانحناء ان یکون کفرا یعنی جھکنا کفر کے نزدیک پہنچا دیتا ہے۔ جو حضرات معانقہ و تقبیل یعنی گلے لگانا اور ہاتھ وغیرہ چومنے کو مکروہ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد سے منقول ہے وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں تاہم جو حضرات ان چیزوں کی کراہت کے قائل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ معانقہ و تقبیل مکروہ ہے جو تملق یعنی بیجا خوشامد اور تعظیم کے طور پر ہو یا جس معانقہ و تقبیل سے کسی برائی میں مبتلا ہوجانے یا شک و شبہ کے پیدا ہوجانے کو خوف ہو ورنہ اس صورت میں گلے لگنا اور ہاتھ وغیرہ چومنا جائز ہے جب کسی کو رخصت کیا جائے یا کوئی سفر سے آئے یا کسی سے بہت دنوں کے بعد ملاقات نصیب ہوئی ہو اور یا بوجہ اللہ کسی کی محبت کا غلبہ اس کا متقاضی ہو۔
Top