مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4578
مصافحہ اور معانقہ کے احکام
باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے نیز دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا غیر مسنون ہے کسی خاص موقع پر یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ ضروری سمجھنا غیر شرعی بات ہے چناچہ بعض مقامات پر جو یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ عصر کی نماز یا جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مصافحہ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ تخصیص وقت کے سبب اس طرح کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور بدعت مذمومہ ہے ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور لوگ نماز میں مشغول ہوں یا نماز شروع کرنے والے ہوں اور وہ شخص نماز ہوجانے کے بعد ان لوگوں سے مصافحہ کرے تو یہ مصافحہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے بشرطیکہ اس نے مصافحہ سے پہلے سلام بھی کیا ہو تاہم یہ واضح رہے کہ اگرچہ کسی متعین اور مکروہ وقت میں مصافحہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وقت مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس کی طرف سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس طرح بےاعتنائی برتنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانے والے شخص کو دکھ پہنچے گا اور کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچانا آداب کی رعایت سے زیادہ اہم ہے۔ جوان عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے اور اس بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کی طرف جنسی جذبات مائل نہ ہوسکتے ہوں چناچہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنے دور خلافت میں ان بوڑھیوں سے مصافحہ کرتے تھے جن کا انہوں نے پیا تھا اسی طرح وہ بڈھا مرد جو جنسی جذبات کی فتنہ خیزیوں سے بےخوف ہوچکا ہو اس کو جوان عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے، عورت کی طرح خوش شکل مرد سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس کو چھونا بھی حرام ہے بلکہ چھونے کی حرمت دیکھنے کی حرمت سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ مطالب المومنین میں مذکور ہے۔ صلوۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص سلام کرے تو اپنا ہاتھ بھی دے یعنی مصافحہ کے لئے ہاتھ دینا سنت ہے لیکن مصافحہ کا یہ طریقہ ملحوظ رہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھے محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنے پر اکتفا نہ کرے کیوں کہ محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنا مصافحہ کا ایسا طریقہ ہے جس کو بدعت کہا گیا ہے۔ معانقہ یعنی ایک دوسرے کو سینے سے لگانا مشروع ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ کوئی شخص سفر سے آیا ہو جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حدیث منقول ہے کہ لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جب کہ اس کی وجہ سے کسی برائی میں مبتلا ہوجانے یا کسی شک وشبہ کے پیدا ہوجانے کا خوف نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں حضرات معانقہ اور تقبیل یعنی ہاتھ کو منہ اور آنکھوں کے ذریعہ چومنے کی کراہت کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ معانقہ کے بارے میں نہی (ممانعت) منقول ہے چناچہ فصل اول میں حضرت انس ؓ کی روایت سے یہ نہی ثابت ہوتی ہے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جن روایتوں سے معانقہ کی اجازت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ معانقہ کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا بہرحال اس سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں اور جن کے درمیان بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ بعض سے ممانعت کی اجازت ثابت ہوتی ہے اور بعض معانقہ کا تعلق محبت و اکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلاشک و شبہ جائز ہے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ معانقہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں بدن پر قمیص و جبہ وغیرہ ہونے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بالا اتفاق جائز ہے۔ تقبیل یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا بھی جائز ہے بلکہ بزرگان دین اور متبعین سنت علماء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کو بعض حضرات نے مستحب کہا ہے لیکن مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا بلکہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے اور مکروہ ہے۔ امرائے سلطنت اور علماء مشائخ کے سامنے زمین بوسی کرنا حرام ہے زمین بوسی کرنے والا اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہگار ہوتے ہیں۔ فقیہ ابوجعفر کہتے ہیں کہ سلطان و حاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والا کافر ہوجاتا ہے بشرطیکہ اس کی زمین بوسی و سجدہ عبادت کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہوجاتا ہے واضح رہے کہ اکثر علماء کے نزدیک زمین بوسی کرنا، زمین پر ما تھا ٹیکنے یا ر خسارہ رکھنے سے ہلکا فعل ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ کسی عالم یا سلطان و حاکم کے ہاتھ کو چومنا ان کے علم و انصاف کی بناء پر اور دین کے اعزازو اکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر ان کے ہاتھ چومنے کا تعلق کسی دنیاوی غرض و منفعت سے ہو تو سخت مکروہ ہوگا اگر کوئی شخص کسی عالم یا کسی بزرگ سے اس کا پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ غیر کا بچہ ہو بلکہ وہاں طفل پر بوسہ دینا مسنون ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو بوسہ شرعی طور پر جائز ہے اس کی پانچ صورتیں ہیں ایک تو مودت و محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچہ کے رخسار کو چومنا، دوسرے احترام و اکرام اور رحمت کا بوسہ، جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا، تیسرے جنسی جذبات کے تحت بوسہ دینا جیسے شوہر کا بیوی کے چہرہ پر بوسہ لینا، چوتھے تحیۃ سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ چومنا اور پانچویں وہ بوسہ جو بہن اپنے بھائی کی پیشانی کا لیتی ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور چہرہ کا بوسہ دینا مکروہ ہے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا بوسہ لینا واجب ہے۔ امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور جنسی جذبات کے تحت بوسہ لینا بالاتفاق حرام ہے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور دوسرا۔
Top