مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4567
عن أبي سعيد الخدري قال أتانا أبو موسى قال إن عمر أرسل إلي أن آتيه فأتيت بابه فسلمت ثلاثا فلم يرد علي فرجعت . فقال ما منعك أن تأتينا ؟ فقلت إني أتيت فسلمت على بابك ثلاثا فلم ترد علي فرجعت وقد قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استأذن أحدكم ثلاثا فلم يؤذن له فليرجع . فقال عمر أقم عليه البينة . قال أبو سعيد فقمت معه فذهبت إلى عمر فشهدت .
دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد بھی گھر میں سے جواب نہ ملے تو واپس ہوجاؤ۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوموسی اشعری ؓ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت عمر ؓ نے میرے پاس ایک شخص کو بھیج کر مجھے بلا بھیجا ہے جب میں حسب طلب ان کے دروازے پر پہنچا اور اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کے لئے تین مرتبہ سلام کیا تو مجھ کو سلام کا جواب نہیں ملا چناچہ میں واپس چلا آیا پھر بعد میں ملاقات ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے پوچھا کہ میرے پاس آنے سے تمہیں کس چیز نے روکا تھا میں نے کہا کہ میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی آپ کے کسی خادم ہی نے جواب دیا لہذا میں واپس آگیا کیوں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا جائے حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ اس حدیث کے گواہ لاؤ یعنی اس حدیث کے صحیح ہونے پر گواہ پیش کرو کہ یہ نبی کا ارشاد گرامی ہے حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوموسی اشعری ؓ کے ساتھ چلنے کے لئے کھڑا ہوا اور حضرت عمر ؓ کے پاس جا کر گواہی دی۔

تشریح
حضرت ابوموسی ؓ نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کے سامنے مذکورہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ یہ حدیث چونکہ آپ نے بھی نبی ﷺ سے سنی ہے اس لئے میرے ساتھ حضرت عمر ؓ کے پاس چلیے اور ان کے سامنے گواہی دیجیے چناچہ حضرت ابوسعید خدری ؓ ان کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے پاس گئے اور یہ گواہی دی کہ حضرت ابوموسی ؓ نے جو حدیث بیان کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ حضرت عمر ؓ کا گواہ طلب کرنا محض احتیاط کے طور پر تھا کہ دوسرے لوگوں کو حدیث بیان کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور خاص طور پر وہ جھوٹے لوگ جو من گھڑ حدیثیں نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا چاہیں ان کو اس بات کی جرات نہ ہو سکے ورنہ متفقہ طور پر یہ بات ہے کہ خبر واحد مقبول ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ راوی حضرت موسیٰ اشعری ؓ جیسا صحابی ہو جو کبار صحابہ میں سے ہیں۔ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار سلام اس لئے کرنا چاہیے کہ ایک سلام تو تعرف کے لئے ہوگا دوسرا سلام تامل کے لئے اور تیسرا سلام اجازت کے لئے ہوگا یعنی اہل خانہ پہلا سلام سن کر اس شخص کو پہچانیں گے کہ یہ کون شخص ہے اور دوسرا سلام سن کر وہ یہ سوچیں گے کہ آیا اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں اور تیسرا سلام سننے کے بعد اندر آنے کی اجازت دیں گے۔
Top