مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4561
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس فقال الحمد لله فحمد الله بإذنه فقال له ربه يرحمك الله يا آدم اذهب إلى أولئك الملائكة إلى ملأ منهم جلوس فقل السلام عليكم . فقال السلام عليكم . قالوا عليك السلام ورحمة الله . ثم رجع إلى ربه فقال إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم . فقال له الله ويداه مقبوضتان اختر أيتهما شئت ؟ فقال اخترت يمين ربي وكلتا يدي ربي يمين مباركة ثم بسطها فإذا فيها آدم وذريته فقال أي رب ما هؤلاء ؟ قال هؤلاء ذريتك فإذا كل إنسان مكتوب عمره بين عينيه فإذا فيهم رجل أضوؤهم أو من أضوئهم قال يا رب من هذا ؟ قال هذا ابنك داود وقد كتبت له عمره أربعين سنة . قال يا رب زد في عمره . قال ذلك الذي كتبت له . قال أي رب فإني قد جعلت له من عمري ستين سنة . قال أنت وذاك . قال ثم سكن الجنة ما شاء الله ثم أهبط منها وكان آدم يعد لنفسه فأتاه ملك الموت فقال له آدم قد عجلت قد كتب لي ألف سنة . قال بلى ولكنك جعلت لابنك داود ستين سنة فجحد فجحدت ذريته ونسي فنسيت ذريته قال فمن يؤمئذ أمر بالكتاب والشهود رواه الترمذي .
سلام کی ابتداء حضرت آدم سے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بنایا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و اجازت سے اللہ کی حمد کی اللہ نے ان کی حمد کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ اور پھر فرمایا آدم فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ جو وہاں بیٹھی ہوئی ہے اور کہو کہ السلام علیکم (چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) ان فرشتوں کی جماعت کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ علیک السلام ورحمۃ اللہ۔ اس کے بعد حضرت آدم اپنے پروردگار کے پاس آئے یعنی اس جگہ لوٹ کر آئے جہاں پروردگار نے ان سے کلام کیا تھا اللہ نے ان سے یہ فرمایا (یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو دیں گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے کہ ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو چاہو پسند کرلو۔ حضرت آدم نے کہا کہ میں نے اپنے پروردگار کے داہنے ہاتھ کو پسند کرلیا۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے برکت ہیں اللہ نے اس ہاتھ کو کھولا تو حضرت آدم نے کیا دیکھا کہ اس میں آدم اور آدم کی اولاد کی صورتیں دیکھیں انہوں نے پوچھا کہ پروردگار یہ کون ہیں؟ پروردگار نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے حضرت آدم نے یہ بھی دیکھا کہ ہر مسلمان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی ہے پھر ان کی نظر ایک ایسے انسان پر پڑی جو سب سے زیادہ روشن تھا جو ان کے روشن ترین لوگوں میں سے ایک تھا حضرت آدم نے اس انسان کو دیکھ کر پوچھا کہ میرے پروردگار یہ کون ہے؟ پروردگار نے فرمایا یہ تمہارا بیٹا داؤد ہے اور میں اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اس کی عمر کچھ اور بڑھا دے پروردگار نے فرمایا یہ وہ چیز ہے جس کو میں اس کے حق میں لکھ چکا ہوں حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اگر اس کی عمر لکھی جا چکی ہے تو میں اپنی عمر سے ساٹھ سال اس کو دیتا ہوں پروردگار نے فرمایا تم جانو اور تمہارا کام جانے یعنی اس معاملہ میں تم مختار ہو۔ رسول اکرم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت آدم جنت میں رہے جب تک کہ اللہ نے چاہا اور پھر ان کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اور حضرت آدم برابر اپنی عمر کے سالوں کو گنتے رہے یہاں تک کہ ان کی عمر نو سو چالیس سال ہوئی تو موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کے لئے ان کے پاس آیا حضرت آدم نے ان سے کہا کہ تم نے جلدی کی میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے فرشتے نے کہا کہ یہ صحیح ہے لیکن آپ نے اپنی عمر کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دیئے ہیں حضرت آدم نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے نیز حضرت آدم اس ممانعت کو بھول گئے تھے جو حق تعالیٰ کی طرف سے مشہور درخت کا پھل کھانے سے متعلق تھی اور ان کی اولاد بھی بھولی تھی آنحضرت نے فرمایا اس دن سے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ (ترمذی)

تشریح
درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ان الفاظ سے اس ہیبت کذائی کو بیان کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے ہاتھوں میں کوئی چیز بند کر کے اس کو چھپا لیتا ہے۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں، یہ جملہ یا تو حضرت آدم نے فرمایا تھا جس کو نبی کریم ﷺ نے نقل کی یا نبی اکرم ﷺ کا اپنا کلام ہے بہر صورت حق تعالیٰ کی طرف ہاتھ اور داہنے ہاتھ کی نسبت کرنا متشابہات میں سے ہے البتہ علماء نے ان الفاظ کے کئی معنی اور تاویلات بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ید ہاتھ کی صفت تو ثابت ہے لیکن ظاہری و جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اللہ کے لئے جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حق تعالیٰ کے لئے جسمانی ہاتھ ثابت ہوتے تو یمین و شمال دایاں اور بایاں بھی ہوتا اور دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہاں خیر و برکت کا وجود مراد ہے جو ید یمین داہنے ہاتھ اور لفظ یمین کے مادہ اشتقاق یمن معنی برکت کا تقاضا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح قوت اور گرفت میں مخلوقات کا بایاں ہاتھ کمزور اور ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ یکسان زور و قوت رکھتے ہیں اس اعتبار سے اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہوئے یہ بات اس طرح گویا سمجھانے کے لئے بیان کی گئی ہے ورنہ اس عبارت کی اصل مراد یہ بیان کرنا ہے کہ حق تعالیٰ کی کسی صفت میں کسی طرح کی کوئی کمزوری اور نقص نہیں اور اس کی تمام صفات کامل ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ ان الفاظ کا مقصد حق تعالیٰ کے جو دو کرم اور احسان و انعام کی صفت کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے چناچہ اہل عرب جب کسی ایسے شخص کی توصیف کرنا چاہتے تو بہت زیادہ نفع پہنچانے والا ہوتا تو اس کے حق میں یہ کہتے کہ کلتا یدیہ یمین یعنی اس شخص کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ جو سب سے زیادہ روشن تھا اس عبارت سے ذہن میں ایک خلجان پیدا ہوتا ہے اور یہ کہ اس سے تمام انبیاء پر حضرت داؤد کی فضیلت لازم آتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس موقع پر حق تعالیٰ نے حضرت آدم کے سامنے حضرت داؤد کو ایک طرح کی امتیازی شکل و صورت میں ظاہر کیا تاکہ اس کی وجہ سے حضرت آدم ان کے بارے میں سوال کریں اور اس سوال پر وہ صورت حال مرتب ہو جو آگے پیش آئی یعنی حضرت آدم کا حضرت داؤد کو اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دینا اور پھر ملک الموت کے آنے پر اس سے انکار کرنا اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ حضرت داؤد کے روشن ترین ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تمام صفات کمالیہ میں سب سے ترجیح رکھتے تھے لہذا ہوسکتا ہے کہ مذکورہ بالا مصلحت کے پیش نظر اس عالم میں حق تعالیٰ نے حضرت داؤد کی شکل و صورت میں ایک طرح کی خاص نوانیت ودیعت فرمائی ہو اور بلکہ وہ اس عالم میں بھی اس نورانیت سے متصف رہے ہوں، چناچہ پیغمبروں میں سے ہر ایک نبی کسی نہ کسی خاص صفت سے موصوف رہا ہے اور اس صفت میں ان کو امتیازی حثییت و خصوصیت حاصل رہی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ محض اس خاص صفت کی بناء اس نبی کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت و فوقیت کا درجہ حاصل ہو۔ میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے ظاہر ہے کہ حضرت آدم نے یہ بات بالکل صحیح کہی تھی کیونکہ واقعۃ حق تعالیٰ نے ان کی عمر ایک ہزار سال مقرر کی تھی البتہ اس بات کے ضمن میں ان کا مذکورہ انکار پوشیدہ تھا انہوں نے صریحا یہ بات نہیں کہی کہ میں نے اپنی عمر سے داؤد کو کچھ نہیں دیا ہے اور صریحا انکار ممکن بھی نہیں تھا کیوں کہ انبیاء کی زبان سے کوئی جھوٹ قصدا اور صریحا صادر نہیں ہوتا لہذا کہا جائے گا کہ حضرت آدم کا یہ انکار بطور تعریض تھا جیسا کہ اس طرح کی بعض صورتیں دیگر انبیاء سے بھی صادر ہوتی ہیں یا یہ کہا جائے کہ حضرت آدم کا مذکورہ بطریق نسیان تھا یعنی انہیں یہ یاد نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی عمر میں سے ساٹھ سال داؤد کو دے چکے ہیں اس لئے انہوں نے ملک الموت کے سامنے سے اس کا انکار کردیا۔
Top