مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4539
وعن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إياكم والجلوس بالطرقات . فقالوا يا رسول الله ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فيها . قال فإذا أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه . قالوا وما حق الطريق يا رسول الله قال غض البصر وكف الأذى ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر .
راستہ کے حقوق
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو۔ یہ سن بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے لئے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ (یعنی راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ہمارے پاس چوں کہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ہم اپنی مجلس رکھا کریں اس لئے جب ہم چند لوگ کہیں مل جاتے ہیں تو وہیں راستہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دینی و دنیاوی امور کے بارے میں باہمی رائے اور مشورہ اور مذاکرات کرتے ہیں ایک دوسرے کی حالت دریافت کرتے ہیں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے لئے علاج معالجہ تجویر کرتے ہیں اگر آپ میں کوئی رنجش وعناد ہوتا ہے تو صلح و صفائی کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو طے کرنے کی تدبیر پر غور کرتے ہیں) نبی ﷺ نے فرمایا جب تم مجبوری کی بناء پر بیٹھنے کے علاوہ دوسری صورت سے انکار کرتے ہو پھر راستہ کو اس کا حق ادا کرو۔ یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ راستے میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہو اور تمہیں ایسی جگہ بیٹھنا پڑے جو راستہ پر واقع ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ راستے کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا آنکھوں کا بند کرنا یعنی حرام چیزوں پر نظر ڈالنا، ایذا رسانی سے باز رہنا یعنی تنگ راستہ کردینے یا کسی اور طرح گزرنے والوں کو ایذاء نہ پہنچانا، سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
سلام کا جواب دینا یہاں سلام کرنے کا حکم دینے کے بجائے سلام کو جواب دینے کی ہدایت کرنا اس مسنون امر کے پیش نظر ہے کہ چلنے اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
Top