مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4528
وعن عبد الله بن عمرو أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الإسلام خير ؟ قال تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف . و
افضل اعمال
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلا کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔ لفظ تقری (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو قرأت سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجہیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لئے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔ اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کئے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔
Top