مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 2114
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل : يا رسول الله فالإبل ؟ قال : ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها ومن حقها حلبها يوم وردها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر أوفر ما كانت لا يفقد منها فصيلا واحدا تطؤه بأخفافها وتعضه بأفواهها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل : يا رسول الله فالبقر والغنم ؟ قال : ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها كلما مر عليه أولاها رد عليه أخراها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار . قيل : يا رسول الله فالخيل ؟ قال : الخيل ثلاثة : هي لرجل وزر وهي لرجل ستر وهي لرجل أجر . فأما التي هي له وزر فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على أهل الإسلام فهي له وزر . وأما التي له ستر فرجل ربطها في سبيل الله ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها فهي له ستر . وأما التي هي له أجر فرجل ربطها في سبيل الله لأهل الإسلام في مرج أو روضة فما أكلت من ذلك المرج أو الروضة من شيء إلا كتب له عدد ما أكلت حسنات وكتب له عدد أرواثها وأبوالها حسنات ولا تقطع طولها فاستنت شرفا أو شرفين إلا كتب الله له عدد آثارها وأوراثها حسنات ولا مر بها صاحبها على نهر فشربت منه ولا يريد أن يسقيها إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات قيل : يا رسول الله فالحمر ؟ قال : ما أنزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة ( فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره ) الزلزلة . رواه مسلم
اعتکاف کے آداب
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے یہ سنت (یعنی ضروری) ہے کہ وہ نہ تو (بالقصد اور ٹھہر کر) مریض کی عیادت کرے اور نہ مسجد سے باہر مطلقاً نماز جنازہ میں شریک ہو نیز نہ عورت سے صحبت کرے نہ عورت سے مباشرت کرے اور نہ علاوہ ضروریات کے مثلا پیشاب و پاخانہ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے باہر نکلے اور روزہ اعتکاف کے لئے ضرور ہے اور اعتکاف مسجد جامع ہی میں صحیح ہوتا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
مباشرت سے وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کا ذریعہ اور باعث بنتی ہیں جیسے بوسہ لینا بدن سے لپٹانا اور اسی قسم کی دوسری حرکات لہٰذا ہم بستری اور مباشرت معتکف کے لئے حرام ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بستری سے اعتکاف باطل بھی ہوجاتا ہے خواہ عمداً کی جائے یا سہوا اور خواہ دن میں ہو یا رات میں، جب کہ مباشرت سے اعتکاف اسی وقت باطل ہوگا جب کہ انزال ہوجائے گا اگر انزال نہیں ہوگا تو اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔ معتکف کے لئے مسجد میں کھانا پینا اور سونا جائز ہے اسی طرح خریدو فروخت بھی جائز ہے بشرطیکہ اشیاء خریدو فروخت مسجد میں نہ لائی جائیں کیونکہ اشیاء خریدو فروخت کو مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے نیز یہ کہ معتکف خریدو فروخت صرف اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال کی صرورت کے لئے کرے گا تو جائز ہوگا اور اگر تجارت وغیرہ کے لئے کرے گا تو جائز نہیں ہوگا یہ بات ذہن نشین رہے کہ مسجد میں خریدو فروخت غیر معتکف کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے جب کہ معتکف مکمل خاموشی کو عبادت جانے ہاں بری باتیں زبان سے نہ نکالے جھوٹ نہ بولے غیبت نہ کرے بلکہ قرآن مجید کی تلاوت نیک کام، حدیث و تفسیر اور انبیاء صالحین کے سوانح پر مشتمل کتابیں یا دوسرے دینی لٹریچر کے مطالعہ، اللہ تعالیٰ کے ذکر یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے اور تصنیف و تالیف میں اپنے اوقات صرف کر دے۔ حاصل یہ ہے کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں ہے مباح کلام و گفتگو بھی بلا ضرورت مکروہ ہے اور اگر ضرورت کے تحت ہو تو وہ خیر میں داخل ہے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ مسجد میں بےضرورت کلام کرنا حسنات کو اس طرح کھا جاتا ہے (یعنی نیست و نابود کردیتا ہے) جیسے آگ خشک لکڑیوں کو۔ حدیث کے الفاظ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے، یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوئی کہ اعتکاف بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا چناچہ اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے، مسجد جامع سے مراد وہ مسجد ہے جس میں لوگ باجماعت نماز پڑھتے ہوں چناچہ حضرت امام اعظم سے منقول ہے کہ اعتکاف اسی مسجد میں صحیح ہوتا ہے جس میں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہوں، امام احمد کا بھی یہی قول ہے حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور صاحبین کے نزدیک ہر مسجد میں اعتکاف درست ہے اگر مسجد جامع سے جمعہ مسجد مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اعتکاف جمعہ مسجد میں افضل ہے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ افضل اعتکاف وہ ہے جو مسجد حرام میں ہو پھر وہ مسجد نبوی میں ہو پھر وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں ہو پھر وہ جامع مسجد میں ہو پھر وہ جو اس مسجد میں ہو جس میں نمازی بہت ہوں۔
Top