جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان
ابوبکر بن محمد عمر بن حزم نے ایک نبطی (نبط کا رہنے والا) کو پکڑا جس نے انگوٹھیاں لوہے کی چرائی تھیں اور اس کو قید کیا ہاتھ کا ٹنے کے واسطے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اپنی مولاۃ (آزاد لونڈی) کو جس کا نام امیہ تھا ابوبکر کے پاس بھیجا ابوبکر نے کہا وہ مولاۃ میرے پاس چلی آئی اور میں لوگوں میں بٹیھا ہوا تھا، بولی تمہاری خالہ عمرہ نے کہا ہے کہ اے میرے بھانجے تو نے ایک نبطی کو پکڑا ہے تھوڑی چیز کے واسطے اور چاہتا ہے اس کا ہاتھ کاٹنا میں نے کہا ہاں! اس نے کہا عمرہ نے کہا ہے کہ قطع نہیں ہے مگر ربع دینار کی مالیت میں یا زیادہ میں تو میں نے نبطی کو چھوڑ دیا۔ کہا مالک نے غلام اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس میں اس کے بدن کا نقصان ہو تو درست ہے اس کو تہمت نہ لگائیں گے اس بات کی کہ اس نے مولیٰ کے ضرر کے واسطے جھوٹا اقرار کرلیا۔ کہا مالک نے اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس کا تاوان مولیٰ کو دینار پڑے تو اس کا اقرار صحیح نہ سمجھا جائے گا۔ کہا مالک نے اگر مزدور یا اور کوئی شخص لوگوں میں رہتا ہو اور آتا ہو پھر وہ ان کی کوئی چیز چرائے تو اس پر قطع نہیں ہے کیونکہ وہ مثل خائن کے ہوا اور خائن پر قطع نہیں ہے۔ کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز بطور عاریتا کے لے پھر مکر جائے تو اس پر قطع نہیں ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا قرض کسی پر ہو اور وہ مکر جائے تو قطع نہیں ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اچک لینے میں قطع نہیں ہے اگرچہ اس شئے کی قیمت ربع دینار یا زیادہ ہو۔