جن جنایات کی دیت خاص قاتل کو اپنے مال میں سے ادا کرنی پڑتی ہے یعنی عاقلہ سے نہیں لی جاتی ان کا بیان
ابن شہاب نے کہا کہ عاقلہ پر عمداً خون کرنے کا بار نہیں ڈالا جاتا مگر خوشی سے دینا چاہیں۔ یحیی بن سعید نے بھی ایسا ہی کہا۔ کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے سنت یوں ہی ہے کہ جب قتل عمد میں مقتول کے وارث قصاص کو عفو کر کے دیت پر راضی ہوجائیں تو وہ دیت قاتل کے مال سے لی جائے گی عاقلہ سے کچھ غرض نہیں مگر جب عاقلہ خود دینا چاہیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم نہیں آتی جب ایک ثلث یا زیادہ نہ ہو اگر ثلث سے کم ہو تو جنایت کرنے والے کے مال سے لی جائے گی۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد یا اور جراحات میں جن میں قصاص لازم آتا ہے اگر دیت قبول کرلی جائے تو قاتل یا جارح کی ذات پر ہوگی عاقلہ پر نہ ہوگی اگر اس کے پاس مال ہو اور جو مال ہو تو اس پر قصاص رہے گا البتہ اگر عاقلہ خوشی سے دینا چاہیں تو اور بات ہے۔ کہا مالک نے اگر کوئی شخص اپنے تئیں آپ عمداً یا خطاءً زخمی کرے تو اس کی دیت عاقلہ پر نہ ہوگی اور میں نے کسی کو نہیں سنا جو عمد کی دیت عاقلہ سے دلائے اس وجہ سے کہ اللہ جل جلالہ نے قتل عمد میں فرمایا جس کا بھائی معاف کردے کچھ (یعنی قصاص چھوڑ دے) تو چاہیے کہ دستور کے موافق چلے اور دیت اچھی طرح ادا کرے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ عمد کی دیت قاتل کو ادا کرنی چاہیے ) کہا مالک نے جس لڑکے کے پاس کچھ مال نہ ہو یا جس عورت کے پاس مال نہ ہو اور وہ کوئی جنایت کرے جس میں ثلث سے کم دیت واجب ہوتی ہے تو دیت انہی کے مال میں سے دی جائے گی اگر مال نہ ہو تو ان پر قرض کے طور پر رہے گی عاقلہ پر یا لڑکے کے باپ پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔ کہا مالک نے جب غلام قتل کیا جائے تو اس کی قیمت جو قتل کے روز ہے دینی ہوگی قاتل کے عاقلہ پر کچھ لازم نہ آئے گا بلکہ قاتل کے خاص مال میں سے لیا جائے گا اگرچہ اس غلام کی قیمت دیت سے زیادہ ہو۔