مسند امام احمد - - حدیث نمبر 1478
عَنْ زُرَيْقِ بْنِ حَکِيمٍ الْأَيْلِيِّ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ مِصْبَاحٌ اسْتَعَانَ ابْنًا لَهُ فَکَأَنَّهُ اسْتَبْطَأَهُ فَلَمَّا جَائَهُ قَالَ لَهُ يَا زَانٍ قَالَ زُرَيْقٌ فَاسْتَعْدَانِي عَلَيْهِ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَجْلِدَهُ قَالَ ابْنُهُ وَاللَّهِ لَئِنْ جَلَدْتَهُ لَأَبُوئَنَّ عَلَی نَفْسِي بِالزِّنَا فَلَمَّا قَالَ ذَلِکَ أَشْکَلَ عَلَيَّ أَمْرُهُ فَکَتَبْتُ فِيهِ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ الْوَالِي يَوْمَئِذٍ أَذْکُرُ لَهُ ذَلِکَ فَکَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ أَنْ أَجِزْ عَفْوَهُ قَالَ زُرَيْقٌ وَکَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَيْضًا أَرَأَيْتَ رَجُلًا افْتُرِيَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَی أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَکَا أَوْ أَحَدُهُمَا قَالَ فَکَتَبَ إِلَيَّ عُمَرُ إِنْ عَفَا فَأَجِزْ عَفْوَهُ فِي نَفْسِهِ وَإِنْ افْتُرِيَ عَلَی أَبَوَيْهِ وَقَدْ هَلَکَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَخُذْ لَهُ بِکِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ سِتْرًا قَالَ مَالِک يَقُولُ وَذَلِکَ أَنْ يَکُونَ الرَّجُلُ الْمُفْتَرَی عَلَيْهِ يَخَافُ إِنْ کُشِفَ ذَلِکَ مِنْهُ أَنْ تَقُومَ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَإِذَا کَانَ عَلَی مَا وَصَفْتُ فَعَفَا جَازَ عَفْوُهُ
حد قذف کا اور نفی نسب کا اور اشارے کنائے میں دوسرے کو گالی دینے کا بیان
زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا اس نے دیر کی جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی، کہا زریق نے اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کرلوں گا میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے) عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ (یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کردی ہے تو عفو صحیح ہے) زریق نے کہا میں نے عمربن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے یا اس کے ماں باپ کو اور ماں باپ اس کے مرگئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مرگیا ہو تو پھر کیا کرے، عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کردینا درست نہیں جب کہ والدین مرگئے ہوں یا ان دو میں سے ایک مرگیا ہو بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔ کہا مالک نے یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہوجائے گا اس وجہ سے عفو کردے تو عفو درست ہے۔
Top