Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (604 - 701)
Select Hadith
604
605
606
607
608
609
610
611
612
613
614
615
616
617
618
619
620
621
622
623
624
625
626
627
628
629
630
631
632
633
634
635
636
637
638
639
640
641
642
643
644
645
646
647
648
649
650
651
652
653
654
655
656
657
658
659
660
661
662
663
664
665
666
667
668
669
670
671
672
673
674
675
676
677
678
679
680
681
682
683
684
685
686
687
688
689
690
691
692
693
694
695
696
697
698
699
700
701
مؤطا امام مالک - - حدیث نمبر 2880
ایک شبہ اور غلط فہمی :
سود کے بارے میں بعض لوگوں نے حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد کو آڑ بنا لیا جو سود کی اس خاص قسم کے بارے میں تھا جس کا مروجہ سود کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں یعنی چھ چیزوں کا باہمی بیع وشراء اور لین دین ان لوگوں نے اس ارشاد کا یہ نتیجہ نکالا کہ ربا کی حقیقت ہی مبہم رہ گئی تھی۔ اس کے متعلق علماء اور فقہاء نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف ان کا اپنے اجتہاد تھا لیکن جیسا کہ ابھی اوپر بتایا گیا حضرت فاروق اعظم کو ربا کی صرف اس قسم کے بارے میں تردد پیش آیا جو قرآن کے الفاظ سے ثابت نہیں تھا بلکہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان فرمایا تھا اور وہ چھ چیزوں کی آپس میں خریدو فروخت کا معاملہ تھا جو سود آج کل رائج ہے اور جو ایام جاہلیت میں بھی عام تھا۔ اس سے حضرت عمر کے اس ارشاد کا دور کا تعلق بھی نہ تھا اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ زمانہ جاہلیت ہی سے اس کے معاملات رائج اور جاری تھے پھر اس ارشاد کہ ان چھ چیزوں کے سود کے بارے میں حضرت عمر کو جو اشکال پیش آیا وہ بھی اس بات میں نہیں تھا کہ انہیں ان چھ چیزوں کے لین دین میں سود کو حرام سمجھنے میں تردد تھا بلکہ اشکال صرف یہ تھا کہ یہ حکم شاید ان چھ چیزوں (یعنی سونا چاندی اور گیہوں وغیرہ) تک ہی محدود نہ ہو بلکہ اس کے حکم کا دائرہ ان چھ چیزوں کے علاوہ دیگر اشیاء تک بھی وسیع ہو اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ لوگ یہ خیال کر کے کہ آنحضرت ﷺ نے صرف چھ چیزوں کے بارے میں یہ حکم فرمایا ہے دیگر اشیاء کے لین دین میں وہی صورتیں اختیار کر کے سود میں مبتلا ہوجائیں جنہیں آپ ﷺ نے چھ چیزوں کے لئے واضح طور پر ربا کہا ہے اس تردد کے پیش نظر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ سود کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی قطعًا چھوڑ دو جن میں سود کا شائبہ تک نہ پایا جائے لہذا یہ ستم ظریقی نہیں تو اور کیا ہے کہ حضرت عمر نے اپنے اشکال کا نتیجہ تو یہ ظاہر فرمایا کہ منصوص چیزوں میں بھی ایسے معاملات سے پرہیز کیا جائے جن میں سود کا شبہ بھی پایا جائے اور ان لوگوں نے حضرت عمر کے اس ارشاد کا تعلق اس سود کی اس مخصوص قسم سے منقطع کر کے عام سود وربا کے معاملات سے جوڑ دیا اور پھر اس پر اکتفاء نہ کیا بلکہ مزید ستم یہ کیا کہ محض اپنی نافہمی کی وجہ سے حضرت عمر کے ارشاد کی روشنی میں سرے سے سود کی حرمت ہی کو ایک مشتبہ مسئلہ قرار دیدیا۔
Top