مؤطا امام مالک - ترکے کی تقسیم کے بیان میں - حدیث نمبر 1409
عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ عُلَمَائِهِمْ أَنَّهُ لَمْ يَتَوَارَثْ مَنْ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ وَيَوْمَ صِفِّينَ وَيَوْمَ الْحَرَّةِ ثُمَّ کَانَ يَوْمَ قُدَيْدٍ فَلَمْ يُوَرَّثْ أَحَدٌ مِنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا إِلَّا مَنْ عُلِمَ أَنَّهُ قُتِلَ قَبْلَ صَاحِبِهِ قَالَ مَالِك وَذَلِكَ الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ وَلَا شَكَّ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا وَكَذَلِكَ الْعَمَلُ فِي كُلِّ مُتَوَارِثَيْنِ هَلَكَا بِغَرَقٍ أَوْ قَتْلٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ مِنْ الْمَوْتِ إِذَا لَمْ يُعْلَمْ أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِهِ لَمْ يَرِثْ أَحَدٌ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا وَكَانَ مِيرَاثُهُمَا لِمَنْ بَقِيَ مِنْ وَرَثَتِهِمَا يَرِثُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَرَثَتُهُ مِنْ الْأَحْيَاءِ و قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي أَنْ يَرِثَ أَحَدٌ أَحَدًا بِالشَّكِّ وَلَا يَرِثُ أَحَدٌ أَحَدًا إِلَّا بِالْيَقِينِ مِنْ الْعِلْمِ وَالشُّهَدَاءِ وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ يَهْلَكُ هُوَ وَمَوْلَاهُ الَّذِي أَعْتَقَهُ أَبُوهُ فَيَقُولُ بَنُو الرَّجُلِ الْعَرَبِيِّ قَدْ وَرِثَهُ أَبُونَا فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُمْ أَنْ يَرِثُوهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا شَهَادَةٍ إِنَّهُ مَاتَ قَبْلَهُ وَإِنَّمَا يَرِثُهُ أَوْلَى النَّاسِ بِهِ مِنْ الْأَحْيَاءِ قَالَ مَالِك وَمِنْ ذَلِكَ أَيْضًا الْأَخَوَانِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ يَمُوتَانِ وَلِأَحَدِهِمَا وَلَدٌ وَالْآخَرُ لَا وَلَدَ لَهُ وَلَهُمَا أَخٌ لِأَبِيهِمَا فَلَا يُعْلَمُ أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلَ صَاحِبِهِ فَمِيرَاثُ الَّذِي لَا وَلَدَ لَهُ لِأَخِيهِ لِأَبِيهِ وَلَيْسَ لِبَنِي أَخِيهِ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ شَيْءٌ قَالَ مَالِك وَمِنْ ذَلِكَ أَيْضًا أَنْ تَهْلَكَ الْعَمَّةُ وَابْنُ أَخِيهَا أَوْ ابْنَةُ الْأَخِ وَعَمُّهَا فَلَا يُعْلَمُ أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلُ فَإِنْ لَمْ يُعْلَمْ أَيُّهُمَا مَاتَ قَبْلُ لَمْ يَرِثْ الْعَمُّ مِنْ ابْنَةِ أَخِيهِ شَيْئًا وَلَا يَرِثُ ابْنُ الْأَخِ مِنْ عَمَّتِهِ شَيْئًا
جن کی موت کا وقت معلوم نہ ہو مثلا لڑائی میں کئی آدمی مارے جائیں ان کا بیان
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن اور بہت سے علماء سے روایت ہے کہ جتنے لوگ قتل ہوئے جنگ جمل اور جنگ صفین اور یوم الحرہ میں اور جو یوم القدید میں مارے گئے وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے مگر جس شخص کا حال معلوم ہوگیا کہ وہ اپنے وارث سے پہلے مارا گیا۔ کہا مالک نے یہی حکم ہے اگر کوئی آدمی ڈوب جائے یا مکان سے گر کر مارے جائیں یا قتل کئے جائیں جب معلوم نہ ہوسکے کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون مرا تو آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ہر ایک کا ترکہ اس کے وارثوں کو جو زندہ ہوں پہنچے گا۔ کہا مالک نے کوئی کسی کا وارث شک سے نہ ہوگا بلکہ علم و یقین سے وارث ہوگا مثلا ایک شخص مرجائے اور اس کے باپ کا مولیٰ (غلام آزاد کیا ہوا) مرجائے اب اس کے بیٹے یہ کہیں اس مولیٰ کا وارث ہمارا باپ تھا تو یہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ علم و یقین یا گواہوں سے یہ ثابت نہ ہو کہ پہلے مولیٰ مرا تھا۔ اس وقت تک مولیٰ کے وارث جو زندہ ہوں اس ترکہ کو پائیں گے۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر سگے دو بھائی مرجائیں ایک کی اولاد ہو اور دوسرا لاولد ہو ان دونوں کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہو پھر معلوم نہ ہوسکے کہ پہلے کون سا بھائی مرا ہے تو جو بھائی لاولد مرا ہے اس کا ترکہ اس کے سوتیلے بھائی کو ملے گا اس کے بھتیجوں کو نہ ملے گا۔
Top