معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1368
عَنْ عُمَرَ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَدَّهُنَّ فِي يَدَيَّ جِبْرِيلُ وَقَالَ جِبْرِيلُ هَكَذَا أُنْزِلَتْ مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعِزَّةِ: اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللهُمَّ وَتَرَحَّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَرَحَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللهُمَّ وَتَحَنَّنْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَحَنَّنْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللهُمَّ وَسَلِّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا سَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (رواه البيهقى فى شعب الايمان والديلمى)
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جبرئیل امین نے میرے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر دُرود شریف کے یہ کلمات تعلیم فرمائے اور بتایا کہ رب العزت جل جلالہ کی طرف سے یہ اسی طرح اُترے ہیں وہ کلمات یہ ہیں۔ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ..... الخ (مسند فردوس دیلمی، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس دُرود میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ اور برکت اور ترحم کی استدعا کے علاوہ سلام اور تحسنن کی استدعا کی گئی ہے۔ تحسنن کے مفہوم کو اردو زبان میں شفقت اور پیار دُلار سے ادا کیا جا سکتا ہے اور سلام کے معنی ہیں ہر برائی اور ناپسندیدہ چیز سے سلامتی ار حفاظت۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کنز العمال جلد اول میں جہاں یہ حدیث ذکر کی گئی ہے وہیں سند کے لحاظ سے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح بھی کر دی گئی ے۔ پھر اسی کی دوسری جلد میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث اور دُرود شریف کے یہی کلمات حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے بھی صاحب مستدرک ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری کی "معرفۃ علم الحدیث" کے حوالے سے ان کی مسلسل سند کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں اور اس سند کے بھی بعض راویوں پر سخت جرح کی گئی ہے، ساتھ ہی سیوطی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہیں اس حدیث کے بعض اور "طریقے" بھی ملے، نیز حضرت انس سے بھی قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث روایت کی گئی ہے جو ابن عساکر کے حوالے سے کنز العمال میں بھی درج ہے اور اصحاب فن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث تعدد طرق کی وجہ سے قابلِ قبول ہو جاتی ہے۔ خاص کر فضائلِ اعمال میں ایسی حدیث سب کے نزدیک قابلِ عمل ہے۔ ملا علی قاریؒ نے شرح شفاء میں ھاکم کی روایت کردہ حضرت علی والی حدیث کے راویوں پر سخت جرح کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ "غایۃ الامر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو بھی قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ " (شرح شفاء ص: ۴۷۳، ج:۳) انہی سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود یہاں درج کر دی گئی ہے۔ یہاں تک جو احادیث درج ہوئیں جن میں دُرود و سلام کے کلمات تلقین فرمائے گئے ہین، یہ سب مرفوع حدیثیں تھیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات تھے۔ اور ان میں دُرود و سلام کے جو کلمات تعلیم فرمائے گئے ہیں۔ ان سب کی بنیاد وحی ربانی پر ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی حدیث کے ذیل میں اوپر گزر چکا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے بشیر بن سعد نے دریافت کیا کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں؟ تو آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے، یہاں تک کہ وحی آئی اس کے بعد آپ ﷺ نے درودِ ابراہیمی تلقین فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دُرود شریف کے بارے میں آپ ﷺ کو بنیادی رہنمائی وحی سے ملی تھی، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ دُرود و سلام کے جو کلمات بھی کسی وقت آپ ﷺ نے تلقین فرمائے ان کی بنیاد وحی پر ہے اور یہ فضیلت دُرود و سلام کے انہیں کلمات کو حاصل ہے جو کسی وقت آپ ﷺ نے تعلیم فرمائے۔ ان کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور دوسرے سلف صالحین سے دُرود و سلام کے جو کلمات منقول ہیں ان کو یہ خصوصیت اور فضیلت ھاصل نہیں ہے، اگرچہ ان میں سے بعض لفظی اور معنوی لحاظ سے بہت ہی بلند ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ان میں سے ایک جو کتبِ حدیث میں فقیہ الامۃ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیاگیاہے، اور دوسرا جو حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے مروی ہے یہاں درج کئے جا رہے ہیں اور انہی پر روایات کا یہ سلسلہ ختم کیا جا رہا ہے۔
Top