معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1352
عَنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِي؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ. قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِي كُلَّهَا قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ. (رواه الترمذى)
اگر کوئی اپنے مقصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی درود ہی پڑھے تو اس کے سارے مسائل غیب سے حل ہوں گے
حضرت اُبی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ آجپﷺ پر درود زیادہ بھیجا کروں (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ پر صلوٰۃ کی استدعا زیادہ کیا کروں) آپ ﷺ مجھے بتا دیجئے کہ اپنی دعا میں سے کتنا حصہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں؟ (یعنی میں اپنے لئے دعا کرنے میں جو وقت صرف کیا کرتا ہوں اس میں سے کتنا آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں) آپ نے فرمایا: جتنا چاہو۔ میں نے عرض کیا کہ: میں اس وقت کا چوتھائی حصہ آپ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر اور زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ: تو پھر میں آدھا وقت اس کے لئے مخصوص کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا چاہو اور اگر اور زیادہ کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ: تو پھر میں اس میں سے دو تہائی وقت آپ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے مخصوص کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جتنا تم چاہو کر دو، اور اگر زیادہ کر دو گے تو تمہارے لئے خیر ہی کا باعث ہو گا۔ میں نے عرض کیا: پھر تو میں اپنی دعا کا سارا ہی وقت آپ پر صلوٰۃکے لئے مخصوص کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری ساری فکروں اور ضرورتوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفایت کی جائے گی (یعنی تمہارے سارے دینی و دنیاوی مہمات غیب سے انجام پائیں گے) اور تمہارے گناہ و قصور معاف کر دئیے جائیں گے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ میں کر دی گئی ہے۔ عام طور سے شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں "صلوٰۃ" دعا کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جو اس کے اصل معنی ہیں۔ حضرت ابی بن کعب کثیر الدعوات تھے، اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگا کرتے تھے۔ ان کے دِل میں آیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعائیں مانگتا ہوں اور جتنا وقت اس میں صرف کرتا ہوں اس میں سے کچھ وقت رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ کے واسطے مانگنے کے لئے) مخصوص کر دوں۔ اس بارے میں انہوں نے خود حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ میں کتنا وقت اس کے لئے مخصوص کر دوں۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے وقت کی کوئی تحدید و تعین مناسب نہیں سمجھی، بلکہ ان ہی کی رائے پر چھوڑ دیا، اور یہ اشارہ فرما دیا کہ اس کے لئے جتنا بھی زیادہ وقت دو گے تمہارے لئے بہتر ہی ہو گا۔ آخر میں انہوں نے طے کیا کہ میں سارا وقت جس میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنے ہی میں یعنی اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے لئے مانگنے میں صرف کروں گا۔ اُن کے اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے وہ سارے مسائل و مہمات جن کے لئے تم دعائیں کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ سے آپ حل ہوں گے، اور تم سے جو گناہ و قصور ہوئے ہوں گے وہ بھی ختم کر دئیے جائیں گے، اُن پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ "معارف الحدیث" کی اسی جلد میں تلاوتِ قرآن مجید کے فضائل کے بیان میں وہ حدیث قدسی گزر چکی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے: "مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ" جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بندہ تلاوتِ قرآن میں اتنا مشغول رہے کہ اس کے علاوہ اللہ کے ذکر کے لئے اور اپنے مقاصد کے واسطے دعا کرنے کے لئے اسے وقت ہی نہ ملے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے اس سے بھی زیادہ اور بہتر دے گا جتنا دعا کرنے والوں اور مانگنے والوں کو دیتا ہے۔ جس طرح اس حدیث میں اُن بندوں کے لئے جو تلاوتِ قرآن میں اپنا سارا وقت صرف کر دیں، اور بس اسی کو اپنا وظیفہ بنا لیں، اللہ تعالیٰ کی اس خاص عنایت و نوازش کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ ان کو دعائیں کرنے والوں اور مانگنے والوں سے بھی زیادہ اور بہتر عطا فرمائے گا۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب والی اس زیرِ تشریح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے لئے وقف کر دیں، اور اپنے ذاتی مسائل و مقاصد کے لئے دعاؤں کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجیں، بتایا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص الخاس کرم ہو گا کہ ان کے مسائل و مہمات غیب سے حل کئے جائیں گے اور ان کے گناہ دُھو ڈالے جائیں گے۔ اس کا راز یہ ہے کہ جس قرآن مجید کی تلاوت سے خاص شغف اور بس اسی کو اپنا وؓظیفہ بنا لینا اللہ کی مقدس کتاب پر ایمان اور اس سے محبت و تعلق کی خاص نشانی ہے، اور اس لئے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص فضل کے مستحق ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام سے ایسا شغف کہ اپنے ذاتی مقاصد و مسائل کے لئے دعا کی جگہ بھی بس آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے، اور اپنے لئے کچھ مانگنے کی جگہ بس آپ ﷺ ہی کے لئے خدا سے مانگا جائے۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺ پر صادق ایمان اور سچے ایمانی تعلق اور قلبی محبت کی علامت ہے اور ایسے مخلص بندے بھی اس کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل اپنی رحمت سے بِلا اُن کے مانگے حل فرمائے۔ علاوہ ازیں وہ احادیث ابھی گزر چکی ہیں جن میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو بندہ رسول اللہ ﷺ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر دس صلوٰتیں بھیجی جاتی ہیں۔ اس کے اعمال نامے میں دس نیکیاں درج کی جاتی ہیں، دس گناہ مِٹا دئیے جاتے ہیں اور دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیا جائے جس بندے کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذاتی دعاؤں کی جگہ بھی بس رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے، اللہ سے اپنے لئے کچھ بھی نہ مانگے، صرف حضور ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرے، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و برکات اور رحمتوں عنایتوں کی کیسی موسلادھار بارش ہو گی، جس کا لازمی اثر اور انجام یہی ہو گ کہ اللہ کی رحمت بِلا مانگے اس کی چاہتیں اور ضرورتیں پوری کرے گی، اور گناہوں کے اثرات سے وہ بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا یقین اور عمل نصیب فرمائے۔
Top