معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1341
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ مَرَّةً وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا» (رواه مسلم)
صلوٰۃ و سلام: احادیث میں درود و سلام کی ترغیبات اور فضائل و برکات
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مجھ پر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجے، اللہ تعالیٰ اس پر دس بار صلوٰۃ بھیجتا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
"صلوٰۃ و سلام" دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ اور اشرف درجہ کی ایک دعا ہے جو رسول اللہ ﷺکی ذاتِ پاک سے اپنی ایمانی وابستگی اور وفا کیشی کے اظہار کے لئے آپ ﷺ کے حق میں کی جاتی ہے، اور اس کا حکم ہم بندوں کو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم میں دیا گیا ہے، اور بڑے پیارے اور مؤثر انداز میں دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے: " إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا " (الاحزاب ع: ۷) اس آیت میں اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کریں (اور یہی آیت کا اصل موضوع اور مدعا ہے) لیکن اس خطاب اور حکم میں خاص اہمیت اور وزن پیدا کرنے کے لئے پہلے بطورِ تمہید فرمایا گیا ہے کہ: "إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ" یعنی نبی ﷺ پر صلوٰۃ (جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے) خدا وند قدوس اور اس کے پاک فرشتوں کا معمول و دَستور ہے، تم بھی اس کو اپنا معمول بنا کے اس محبوب و مبارک عمل میں شریک ہو جاؤ۔ حکم اور خطاب کا یہ انداز قرآن پاک میں صرف صلوٰۃ و سلام کے اس حکم ہی کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ دوسرے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کے لئے بھی نہیں کہا گیا کہ خدا اور اس کے فرشتے یہ کام کرتے ہیں تم بھی کرو۔ بلاشبہ صلوٰۃ و سلام کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے مقامِ محبوبیت کے خصائص میں سے ہے۔ صلوٰۃ علی النبی کا مطلب اور ایک اشکال کا حل سورہ احزاب کی اس آیت میں بہت سے لوگوں کو یہ اشکال محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اللہ اور فرشتوں کی نسبت سے بھی "صلوٰۃ" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور مومن بندوں کی نسبت سے بھی وہی لفظ استعمال فرمایا گیا ہے، حالانکہ حقیقت کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کا عمل دوسرے سے یقینا مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ جپر صلوٰۃ کا جو عمل ہوتا ہے (جسکو اس آیت میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ جوڑ کر "يُصَلُّونَ " کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے) وہ ہرگز فرشتوں اور مؤمنین کا عمل نہیں ہو سکتا۔ اور اسی طرح ایمان والے بندوں سے جس عملِ صلوٰۃ کا مطالبہ "صَلُّوا" کے لفظ سے کیا گیا ہے وہ ہرگز خدا کا فعل نہیں ہو سکتا۔ اس کو حل کرنے کے لئے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نسبت بدلنے سے صلوٰۃ کے معنی بدل جاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کی نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے رحمت نازل کرنا، اور جب ملائکہ یا مومنین کی طرف نسبت ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اللہ سے رحمت کی دعا کرنا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ صلوٰۃ کے معنی میں بہت وسعت ہے۔ تکریم و تشریف، مدح و ثناء، رفعِ مراتب، محبت و عطوفت، برکت و رحمت، پیار دُلار، ارادہ خیر و دعائے خیر، ان سب کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے۔ اس لئے اس کی نسبت اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف ایمان والے بندوں کی طرف یکساں طور پر کی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ فرق ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ اس کی شانِ عالی کے مطابق ہو گی، اور فرشتوں کی طرف سے ان کے مرتبہ کے مطابق اور مومنین کی طرف سے اُن کی حیثیت کے مطابق۔ اس بناء پر آٰت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی ﷺ پر خاص الخاص عنایت و نوازش اور پیار دُلار سے، اور وہ ان کی مدح و ستائش کرتا اور عظمت و شرف کے بلند ترین مقام تک انکو پہنچانا چاہتا ہے، اور فرشتے بھی ان کی تکریم و تعظیم اور مدح و ثناء کرتے ہین اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بیش از بیش الطاف و عنایات اور رفع درجات کی دعائیں کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ایسا ہی کرو، اور آپ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص لطف و عنایت، محبت و عطوفت، مراتب اور درجات کی رفعت، پورے عالم کی سیادت و امامت اور مقامِ محمود و قبولیت شفاعت کی دعا کیا کرو اور آپ ﷺ پر سلام بھیجا کرو۔ صلوٰۃ و سلام کی عظمت و اہمیت اس آیت میں جیسی شاندار تمہید اور جس اہتمام کے ساتھ اہلِ ایمان کو صلوٰۃ و سلامکا حکم دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت و عظمت ہے اور وہ کیسا محبوب عمل ہے۔آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ اس میں اہلِ ایمان کے لئے کس قدر خیر، کتنی رحمت اور کیسی برکات ہیں۔ صلوٰۃ و سلام کے بارے میں فقہاء کے مسالک امت کے فقہاء اس پر تقریباً متفق ہیں کہ سورہ احزاب کی اس آیت کی رو سے رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر فردِ امت پر فرض ہے، پھر ائمہ امت میں سے امام شافعیؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ خاص کر ہر نماز کے قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھنا واجباتِ نماز میں سے ہے، اگر نہ پڑھی تو ان ائمہ کے نزدیک نماز ہی نہ ہو گی۔ لیکن امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور اکثر دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قعدہ میں تشہد تو بےشک واجب ہے جس کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ پر سلام بھی آ جاتا ہے لیکن اس کے بعد مستقلا درود شریف پڑھنا فرض یا واجب نہیں بلکہ ایک اہم اور مبارک سنت ہے جس کے چھوٹ جانے سے نماز میں بڑا نقص رہ جاتا ہے۔ مگر اس اختلاف کے باوجود اس پر تقریبا اتفاق ہے ک اس آیت کے حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح مثلا آپ ﷺ کی رسالت کی شہادت دینا، جس کے لئے کسی وقت اور تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لے اور پھر اس پر قائم رہے۔ آگے بعض وہ حدیثیں آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ جب جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر آئے آپ ﷺ پر لازما درود بھیجا جائے اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی آئیں گی۔ ان احادیث کی بناء پر بہت سے فقہاء اس کے بھی قائل ہیں کہ جب کوئی آپ ﷺ کا ذکر کرے یا کسی دوسرے سے سنے تو اس وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنا واجب ہے۔ پھر ایک رائے یہ ہے کہ اگر ایک ہی نشست اور ایک ہی سلسلہ کلام میں بار بار آپ ﷺ کا ذکر آئے تو ہر دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور دوسری رائے یہ ہے کہ اس صورت میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہو گا اور ہر دفعہ پڑھنا مستحب ہو گا اور محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ واللہ اعلم درود شریف کی امتیازی خاصیت اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں پھلوں اور پھولوں کو الگ الگ رنگتیں دی ہیں اور ان میں مختلف قسم کی خوشبوئیں رکھی ہیں (ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر ست) اسی طرح مختلف عبادات اور اذکار و دعوات کے الگ الگ خواص اور برکات ہیں۔ درود شریف کی امتیازی خاصیت یہ ہے کہ خلوصِ دل سے اس کی کثرت، اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت، رسول اللہ ﷺ کے روحانی قرب اور آپ ﷺ کی خصوصی شفقت و عنایت حاصل ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر اُمتی کا درود سلام اس کے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور اس کے لئے فرشتون کا ایک پورا عملہ ہے۔ ذرا غور کریں! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فلاں بندہ آپ کے لئے اور آپ کے گھر والوں اور سب متعلقین کے لئے اچھی سے اچھی دعائیں برابر کرتا رہتا ہے، اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے اتنا نہیں مانگتا جتنا آپ کے لئے مانگتا ہے اور یہ اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے تو آپ کے دل میں اس کی کیسی قدر و محبت اور خیرخواہی کا کیسا جذبہ پیدا ہو گا۔ پھر جب کبھی اللہ کا وہ بندہ آپ سے ملے گا اور آپ کے سامنے آئے گا تو آپ کس طرح اس سے ملیں گے۔ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ایمان و اخلاص کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھے اس پر آپ کی کیسی نظر عنایت ہو گی اور قیامت و آخرت میں اس کے ساتھ آپ کا معاملہ کیا ہو گا۔ اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا جو مقام حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس بندے سے اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہو گا اور اس پر اس کا اکیسا کرم ہو گا۔ درود و سلام کا مقصد یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ درود و سلام اگرچہ بظاہر رسول اللہ ﷺ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا ہے لیکن جس طرح کسی دوسرے کے لئے دعا کرنے کا اصل مقصد اس کو نفع پہنچانا ہوتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مقصد آپ ﷺ کی ذات پاک کو نفع پہنچانا نہیں ہوتا، ہماری دعاؤں کی آپ ﷺ کو قطعاً کوئی احتیاج نہیں۔ بادشاہوں کو فقیروں، مسکینوں کے تحفوں اور ہدیوں کی کیا ضرورت۔ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کے ذریعہ اپنی عبدیت اور عبودیت کا نذرانہ اس کے حضور میں پیش کریں اور اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ وہ خود ہماری ضرورت ہے، اور اس کا نفع ہم ہی کو پہنچتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے محاسن و کمالات، آپ ﷺ کی پیغمبرانہ خدمات اور امت پر آپ ﷺ کے عظیم احسانات کا یہ حق ہے کہ امتی آپ ﷺ کے حضور میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنویت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کریں، اسی کے لئے درود و سلام کا یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ ﷺ کو کوئی نفع پہنچانا نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے ہی نفع کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و ثوابِ آخرت اور اس کے رسولِ پاک کا روحانی قرب اور ان کی خاص نظرِ عنایت حاصل کرنے کے لئے درود و سلام پڑھا جاتا ہے اور پڑھنے والے کا اصل مقصد بس یہی ہوتا ہے۔ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمارا درود و سلام کا یہ ہدیہ اپنے رسولِ پاک تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچواتا ہے اور بہت سوں کا آپ ﷺ کو قبرِ مبارک میں براہ راست بھی سنوا دیتا ہے (جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا) نیز ہمارے اس درود و سلام کے حساب میں بھی رسول اللہ ﷺ پر اپنے الطاف و عنایات اور تکریم و تشریف میں اضافہ فرماتا ہے۔ درود و سلام کی خاص حکمت انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کی خدمت میں عقیدت و محبت اور وفاداری و نیاز مندی کا ہدیہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے درود و سلام کا طریقہ مقرر کرنے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام ہی کی ہیں اور ان میں سب سے اکرم و افضل خاتم النبیین سیدنا حضرت محمدﷺ ہیں۔ جب ان کے بارے میں یہ حکم دے دیا گیا کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے خاص الخاص عنایت و رحمت اور سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور نظر کرم کے محتاج ہیں، اور ان کا حق اور مقام عالی یہی ہے کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ سے اعلیٰ دعائیں کی جائیں اس کے بعد شرک کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ کتنا بڑا کرم ہے رب کریم کا کہ اس کے اس حکم نے ہم بندوں اور اُمتیوں کو نبیوں اور رسولوں کا اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کا دعاگو بنا دیا۔ جو بندہ ان مقدس ہستیوں کا دعاگو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے۔ اس تمہید کے بعد ہو حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کی ترغیب دی گئی ہے، اور اس کی فضیلت اور برکات کا بیان فرمایا گیا ہے۔ تشریح ..... اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ صلوٰۃ کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی جو تکریم و تشریف اور آپ ﷺ پر جو خاص الخاص عنایت و نوازش ہوتی ہے اس کو بھی صلوٰۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عام ایمان والے بندوں کے ساتھ رحمت و کرم کا جو معاملہ ہوتا ہے اس کے لئے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اس حدیث میں اس رحمت و عنایت کے لئے بھی جو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے فرمایا گیا ہے "صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا" (یعنی حضور ﷺ پر ایک دفعہ صلوٰۃبھیجنے والے بندے پر اللہ تعالیٰ دس دفعہ صلوٰۃ بھیجتا ہے) مگر ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ میں اور دوسرے کسی ایمان والے بندے پر اس کی صلوٰۃ میں وہی فرق ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کے مقامِ عالی اور اس بندے کے درجہ میں ہو گا۔ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ پر ہم بندوں کے صلوٰۃبھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کی استدعا کریں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد و مدعا صرف ایک حقیقت اور واقعہ کی اطلاع دینا نہیں ہے بلکہ اس مبارک عمل (الصَّلَوةُ عَلَى النَّبِيِّ) کی ترغیب دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ یعنی خصوصی رحمتوں اور عنایتوں کے حاصل کرنے اور خود رسول اللہ ﷺ کے قربِ روحانی کی برکات سے بہرہ ور ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی حدیثوں کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے۔
Top