معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1340
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ، مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلِكَةٍ، مَعَهُ رَاحِلَتُهُ، عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ، فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ، فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ، فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَاللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ " (رواه البخارى ومسلم)
توبہ و استغفار سے اللہ کتنا خوش ہوتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے: خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس مسافر آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو (اثنائے سفر میں) کسی ایسی غیرا ٓباد اور سنسان زمین پر اُتر گیا ہو جو سامانِ حیات سے خالی اور اسبابِ ہلاکت سے بھرپور ہو اور اس کے ساتھ بس اس کی سواری کی اونٹنی ہو اسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو، پھر وہ (آرام لینے کے لئے) سر رکھ کے لیٹ جائے پھر اسے نیند آ جائے پھر اس کی آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی اونٹنی (پورے سامان سمیت) غائب ہے، پر وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہو، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس وغیرہ کی شدت سے جب اس کی جان پر بن آئے تو وہ سوچنے لگے کہ (میرے لئے اب یہی بہتر ہے) کہ میں اسی جگہ جا کر پڑ جاؤں (جہاں سویا تھا) یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے پھر وہ (اسی ارادہ سے وہاں آ کر) اپنے بازو پر سر رکھ کے مرنے کے لئے لیٹ جائے، پھر اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے پاس موجود ہے اور اس پر کھانے پینے کا پورا سامان (جوں کا توں محفوظ) ہے تو جتنا خوش یہ مسافر اپنی اونٹنی کے ملنے سے ہو گا خدا کی قسم مؤمن بندے کے توبہ کرنے سے خدا اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
توبہ و استغفار سے متعلق احادیث و روایات کے سلسلہ کو مندرجہ ذیل حدیث پر ختم کیا جاتا ہے جو صحیحین میں بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے، اور جس میں رسول اللہ ﷺ نے توبہ کرنے والے گناہگاروں کو وہ بشارت سنائی ہے جو کسی دوسرے بڑے سے بڑے عمل پر بھی نہیں سنائی گئی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کو سمجھنے کے لئے صرف یہی ایک حدیث ہوتی تو کافی تھی۔ حق یہ ہے کہ اس چند سطری حدیث میں معرفت کا ایک دفتر ہے۔ اللہ تعالیٰ فہم اور یقین نصیب فرمائے۔ تشریح ذرا تصور کیجئے اس بدو مسافر کا جو اکیلا اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اور راستہ بھر کے لئے کھانے پینے کا سامان اسی پر لاد کر دور دراز کے سفر پر کسی ایسے راستہ سے چلا جس میں کہیں دانہ پانی ملنے کی امید نہیں، پھر اثنائے سفر میں وہ کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کرنے کے ارادہ سے لیٹ گیا، اس تھکے ماندے مسافر کی آنکھ لگ گئی، کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اونٹنی اپنے سازو سامان کے ساتھ غائب ہے، وہ بےچارہ حیران و سراسیمہ ہو کر اس کی تلاش میں دوڑا بھاگا، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت نے اس کو لبِ دم کر دیا، اب اس نے سوچا کہ شاید میری موت اسی طرح اس جنگل بیابان میں لکھی تھی، اور اب بھوک پیاس میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے یہاں مرنا ہی میرے لئے مقدر ہے، اس لئے وہ اسی سایہ کی جگہ میں مرنے کے لئے آگے پڑ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا، اسی حالت میں اس کی آنکھ پھر جھپکی، اس کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹنی اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی ہے۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ بھاگی ہوئی اور گم شدہ اونٹنی کو اس طرح اپنے پاس کھڑا دیکھ کے اس بدو کو جو مایوس ہو کر مرنے کے لئے پڑ گیا تھا کس قدر خوشی ہو گی۔ صادق مصدوق ﷺ نے اس حدیث پاک میں قسم کھا کے فرمایا کہ: خدا کی قسم! بندہ جب جرم و گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا اور سچے دل سے توبہ کر کے اس کی طرف آتا ہے تو اس رحیم و کریم رب کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کہ اس بدو کو اپنی بھاگی ہوئی اونٹنی کے ملنے سے ہو گی۔ قریب قریب یہی مضمون صحیحین میں حضرت ابن مسعودؓ کے علاوہ حضرت انسؓ کی روایت سے بھی مروی ہے۔ اور صحیح مسلم میں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت براء بن عازب ؓ سے بھی یہی مضمون مروی ہے، بلکہ حضرت انسؓ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بدو مسافر کی فرطِ مسرت کا حال بیان کرتے ہوئے گرمایا کہ: اونٹنی کے اس طرح مل جانے سے وہ اتنا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بے انتہا عنایت اور بندہ نوازی کے اعتراف کے طور پر وہ کہنا چاہتا تھا کہ "اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ" (خداوندا! بس تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ) لیکن خوشی کی سرمستی میں اس کی زبان بہک گئی اور اس نے کہا "اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِىْ وَأَنَا رَبُّكَ" (میرے اللہ! بس تو میرا بندہ اور میں تیرا خدا۔) آنحضرتﷺ نے اس کی اس غلطی کی معذرت کرتے ہوئے فرمایا: "أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرْحِ" (فرطِ مسرت اور بےحد خوشی کی وجہ سے اس بےچارے بدو کی زبان بہک گئی)۔ (1) بلا شبہ اس حدیث میں توبہ کرنے والے گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی جو خوشنودی کی بشارت سنائی گئی ہے وہ جنت اور اس کی ساری نعمتوں سے بھی فائق ہے۔ شیخ ابن القیمؒ نے "مدارج السالکین" میں توبہ و استغفار ہی کے بیان میں اسی حدیث پر کلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس خوشنودی کی وضاحت میں ایک عجیب و غریب مضمون لکھا ہے جس کو پڑھ کر ایمانی روح وجد میں آ جاتی ہے۔ ذیل میں اس کا صرف حاصل و خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ "اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی ساری کائنات میں انسان کو خاص شرف بخشا ہے، دنیا کی ساری چیزیں اس کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور اس کو اپنی معرفت اور اطاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، ساری مخلوقات کو اس کے لئے مسخر کیا، اور اپنے فرشتوں تک کو اس کا خادم اور محافظ بنایا، پھر اس کی ہادیت و رہنمائی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں اور نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا، پھر ان ہی میں سے کسی کو اپنا خلیل بنایا اور کسی کو شرفِ ہم کلامی بخشا اور بہت بڑی تعداد کو اپنی ولایت اور قربِ خصوصی کی دولت سے نوازا۔ اور انسانوں ہی کے لئے دراصل جنت و دوزخ کو بنایا۔ الغرض دنیا و آخرت میں عالمِ خلق و امر میں جو کچھ ہے اور ہو گا اس سب کا اصل مرکز و محور بنی نوع انسان ہی ہے، اس نے امانت کا بوجھ اٹھایا، اسی کے لیے شریعت کا نزول ہوا، اور ثواب و عذاب دراصل اسی کے لئے ہے۔ پس اس پورے کارخانہ عالم میں انسان ہی اصل مقصود ہے، اللہ نے اس کو اپنے کاص دستِ قدرت سے بنایا، اس میں اپنی روح ڈالی، اپنے فرشتوں سےئ اس کو سجدہ کرایا، اور ابلیس اس کو سجدہ ہی نہ کرنے کے جرم میں مردود بارگاہ ہوا اور اللہ نے اس کو اپنا دشمن قرار دیا۔ یہ سب اس لئے کہ اس خالق نے انسان ہی میں اس کی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایک زمینی اور بادی مخلوق ہونے کے باوجود اپنے خالق و پروردگار کی (جو وراء الوراء اور غیب الغیب ہے) اعلیٰ درجہ کی معرفت حاصل کرے، ممکن حد تک اس کے اسرار اور اس کی حکمتوں سے آشنا ہو، اس سے محبت اور اس کی اطاعت کرے، اس کے لئے اپنے نفسانی مرغوبات اور اپنی ہر چیز کو قربان کرے، اور اس دنیا میں اس کی خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرے، اور پھر اس کی خاص الخاص عنایتوں اور بےحساب بخششوں کا مستحق ہو کر اس کی رحمت و رافت، اس کے پیار و محبت اور اس کے بےانتہا لطف و کرم کا مورد بنے۔ اور چونکہ وہ ربِ کریم اپنی ذات سے رحیم ہے اور لطف و کرم اس کی ذاتی صفت ہے (جس طرح بلا تشبیہ مامتاں کی ذاتی صفت ہے) اس لئے اپنے وفادار اور نیک کردار بندوں کو انعامات و احسانات سے نوازنا اور اپنے عطیات سے ان کی جھولیوں کو بھر دینا اس کے لئے بلاتشبیہ اسی طرح بےانتہا خوشی کا باعث ہے جس طرح اپنے بچے کو دودھ پلانا اور نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنانا مامتا والی ماں کے لئے انتہائی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ اب اگر بندے نے بدبختی سے اپنے اس خالق و پروردگار کی وفاداری اور فرمانبرداری کا راستہ چھوڑ کے بغاوت و نافرمانی کا طریقہ اختیار کر لیا اور اس کے دشمن اور باغی شیطان کے لشکر اور اس کے متبعین میں شامل ہو گیا اور رب کریم کی ذاتی صفت رحمت و رافت اور لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے وہ اس کے قہر و غضب کو بھڑکانے لگا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ میں (بلاتشبیہ) اس غصہ اور ناراضی کی سی کیفیت پیدا ہو گی جو نالائق اور ناخلف بیٹے کی نافرمانی اور بدکرداری دیکھ کر مامتا والی ماں کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اگر اس بندے کو کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے مالک و پروردگار کو ناراض کر کے خود کو اور اپنے مستقبل کو برباد کر لیا اور اس کے دامنِ رحم و کرم کے سوا میرے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے، پھر وہ اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوا اور مغفرت و رحمت کا سائل بن کر اس کی بارگاہِ کرم کی طرف رجوع کرے، سچے دل سے توبہ کرے، روئے اور گڑگڑائے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لئے وفاداری اور فرمانبرداری کا عہد و ارادہ کر لے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اس کریم رب کو جس کی ذاتی صفت رحمت و رأفت اور جس کا پیار ماں کے پیار سے بھی ہزاروں گنا زیادہ ہے، اور جو بندوں پر نعمتوں کی بارش برسا کے اتنا خوش ہوتا ہے جتنا نعمتوں کو پا کر محتاج بندے خوش نہں ہوتے، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسے کریم پروردگار کو اپنے اس بندے کی اس توبہ و انابت سے کتنی خوشی ہو گی۔" شیخ ابن القیمؒ نے اس سے بہت زیادہ وضاحت اور بسط کے ساتھ یہ مضمون لکھنے کے بعد آخر میں کسی عارف کا ایک واقعہ لکھا ہے جو شیطان یا نفسِ امارہ کے اغواء سے غلط راستے پر پڑ گئے تھے اور سرکشی و نافرمانی کے جراثیم ان کی روح میں پیدا ہونے لگے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: "وہ عارف ایک گلی سے گزر رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بچہ روتا چلاتا ہوا اس میں سے نکلا، اس کی ماں اس کو گھر سے دھکے دے دے کر نکال رہی تھی، جب وہ دروازے سے باہر ہو گیا تو ماں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا، بچہ اسی طرح روتا چلاتا بکتا بڑبڑاتا کچھ دور تک گیا، پھر ایک جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جا سکتا ہوں اور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، یہ سوچ کر ٹوٹے دل کے ساتھ وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ پڑا۔ دروازہ پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو وہ بےچارہ وہیں چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑ گیا اور اسی حالت میں سو گیا۔ ماں آئی اس نے دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو اس طرح چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑا دیکھ کے اس کا دل بھر آیا اور مامتا کا جذبہ اُبھر آیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور اس کو پیار کرنے لگی، اور کہہ رہی تھی: بیٹے تو نے دیکھا تیرے لئے میرے سوا کون ہے، تو نے نالائقی، نادانی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے اور میرا دل دکھا کے مجھے وہ غصہ دلایا جو تیرے لئے میری فطرت نہیں ہے، میری فطرت اور مامتا کا تقاضا تو یہی ہے کہ میں تجھ پر پیار کروں اور تجھے راحت و آرام پہنچانے کی کوشش کروں، تیرے لئے ہر خیر اور بھلائی چاہوں میرے پاس جو کچھ ہے تیرے ہی لئے ہے۔ ان عارف نے یہ سارا ماجرا دیکھا اور اس میں اُن کے لئے جو سبق تھا وہ لیا۔ " اس قصہ پر غور کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سامنے رکھئے: "اَللهُ اَرْحَمُ لِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا" (خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کی ذات میں اپنے بندوں کے لئے اس سے زیادہ پیار اور رحم ہے جتنا کہ اس ماں میں اپنے بچے کے لئے ہے)۔ کیسے بدبخت اور محروم ہیں وہ بندے جنہوں نے نافرمانی کی راہ اپنا کے ایسے رحیم و کریم پروردگار کی رحمت سے اپنے کو محروم کر لیا ہے اور اس کے قہر و غضب کو بھڑکا رہے ہیں، حالانکہ توبہ کا دروازہ اُن کے لئے کھلا ہوا ہے اور وہ اس کی طرف قدم بڑھا کے اللہ تعالیٰ کا وہ پیار حاصل کر سکتے ہیں جس کے سامنے ماں کا پیار کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم اور یقین نصیب فرمائے۔ يَا غَفَّارُ اغْفِرْ لِي، يَا تَوَّابُ تُبْ عَلَيَّ، يَا رَحْمَانُ ارْحَمْنِي، يَا رَءُوفُ ارْأُفْ بِي، يَا عَفُوُّ اعْفُ عَنِّي، يَا رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكَرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ، وَطَوِّقْنِي حُسْنَ عِبَادَتِكَ.
Top