معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1338
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا» (رواه ابن ماجه والنسائى)
استغفار کی برکات
حضرت عبداللہ بن بسر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: خوشی ہو اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیاادہ استغفار پائے (یعنی آخرت میں وہ دیکھے کہ اس کے اعمال نامہ میں استغفار بکثرت درج ہے)۔ (سنن ابن ماجہ، سنن نسائی)

تشریح
واضح رہے کہ اعمال نامہ میں جو حقیقی استغفار کے طور پر وہی استغفار درج ہو گا جو حقیقت کے لحاظ سے عنداللہ بھی استغفار ہو گا۔ اور جو صرف زبان سے استغفار ہو گا اگر درج ہو گا تو صرف زبانی اور لفظی استغفار کے طور پر درج ہو گا اور اگر اندراج پانے کے قابل نہ ہو گا تو درج ہی نہ ہو گا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ: "طُوبَى لِمَنْ اسْتَغْفَرَ كَثِيرًا" (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) بلکہ یہ فرمایا کہ: "طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا" (خوشی اور مبارک ہو اس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے) امت کی مشہور عارفہ حضرت رابعہ عدویہ قدس سرہا سے منقول ہے، وہ فرماتی تھیں کہ: ہمارا استغفار خود اس قابل ہوتا ہے کہ اللہ کی حضور میں اس سے بہت زیادہ استغفار کیا جائے۔ اس حدیث میں "طوبیٰ" کا لفظ بہت ہی جامع ہے، دنیا اور آخرت اور جنت کی ساری ہی مسرتیں اور نعمتیں اس میں شامل ہیں۔ بلاشبہ جس بندے کو حقیقی استغفار نصیب ہو اور خوب کثرت سے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے اور اس کو سب ہی کچھ نصیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔
Top