معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1336
عن ابن عمر قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا ما يقول لنا: معاشر أصحابي ما يمنعكم أن تكفروا ذنوبكم بكلمات يسيرة؟ قالوا يا رسول الله: وما هي؟ قال تقولون مقالة أخي الخضر، قلنا يا رسول الله: ما كان يقول؟ قال كان يقول: اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه، وأستغفرك لما أعطيتك من نفسي ثم لم أوف لك به، وأستغفرك للنعم التي أنعمت بها علي فتقويت بها على معاصيك وأستغفرك لكل خير أردت به وجهك فخالطني فيه ما ليس لك، اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر ". (رواه الديلمي)
حضرت خضرؑ کا استغفار
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں سے اکثر فرمایا کرتے تھے: اے میرے ساتھیوں! تمہارے لئے کیا چیز اس سے مانع ہو سکتی ہے کہ چند آسان کلموں کے ذریعے اپنے گناہوں کی صفائی کر لیا کرو! عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے کلمے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کہا کرو جو میرے بھائی خضر کہا کرتے تھے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کیا کہا کرتے تھے؟ فرمایا: وہ کہا کرتے تھے "اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه تا اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر" (اے اللہ! میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن گناہوں کی جن سے میں نے تیرے حضور میں توبہ کی ہو (اور شامتِ نفس سے) پھر پلٹ کر وہی گناہ دوبارہ کئے ہوں، اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اس عہد کے بارے میں جو میں نے اپنی ذات کی طرف سے تجھ سے کیا ہو اور پھر میں نے اس کو وفا نہ کیا ہو، (بلکہ عہد شکنی کی ہو) اور میں تجھ سے معافی اور بخشش چاہتا ہوں اُن نعمتوں کے بارے میں جن سے طاقت و قوت حاصل کر کے میں نے تیری نافرمانیاں کی ہوں اور تجھ سے معافی اور بخشش کا سوال کرتا ہوں ہر اس نیکی کے بارے میں جو میں نے تیری رضا جوئی کی نیت سے کرنی چاہی ہو پھر اس میں تیرے ماسوا دوسرے اغراض کی آمیزش ہو گئی ہو۔ اے میرے اللہ! مجھے (دوسروں کے سامنے) رسوا نہ کرنا۔ بےشک تو مجھے خوب جانتا ہے، تجھ سے میرا کوئی راز ڈھکا چھپا نہیں ہے اور (میرے گناہوں پر) مجھے عذاب نہ دینا، تجھے مجھ پر ہر طرح قدرت حاصل ہے۔ (اور میں بالکل عاجز اور تیرے قبضہ و اختیار میں ہوں)۔ (مسند احمد دیلمی)

تشریح
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کا بندہ پورے صدق و خلوص کے ساتھ کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے لیکن پھر اس سے وہی گناہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد و میثاق کرتا ہے اور پھر کسی وقت اس کے خلاف کر بیٹھتا ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق اور راحت و آرام وغیرہ کی جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کے استعمال سے وہ جو قوت و طاقت یا دولت حاصل کرتا ہے اس کو وہ بجائے طاعت کے معصیت کی راہ میں استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیک عمل خالص اللہ کے لئے اور اس کی رضا جوئی کے جذبہ کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے لیکن بعد میں دوسرے غلط جذبات اور ناپسندیدہ اغراض کی اس میں آمیزش ہو جاتی ہے۔ یہ سب روزمرہ کے تجربے اور روزمرہ کی واردات ہیں اور اچھے اچھوں کو پیش آتی ہیں۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آخرت کی فکر رکھنے والے بندوں کے دل و زبان کی استدعا کیا ہونی چاہئے؟ مندرجہ بالا استغفار کے کلمات میں اسی کی پوری رہنمائی اور تلقین فرمائی گئی ہے اور یہ کلمات اپنے مضمون کی گہرائی اور جامعیت کے لحاظ سے یقینا معجزانہ ہیں، اسی لئے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا ہے، اگرچہ "کنز الاعمال " میں اس کی تخریج صرف دیلمی سے کی گئی ہے جو محدثین کے نزدیک سند کے لحاظ سے ضعیف ہونے کی علامت ہے۔ "کلمات استغفار" کے زیرِ عنوان یہاں صرف ان چار ہی حدیثوں پر اکتفا کیا گیا ہے، نماز کے متعلق دُعاؤں میں، اور اسی طرح مخصوص حالات و اوقات کی دعاؤں میں، اور علیٰ ہذا جامع اور ہمہ گیر دعاؤں میں ان کے علاوہ استغفار کے بیسیوں بلکہ پچاسوں کلمات گزر چکے ہیں۔ اس طرح استغفار کے ان کلمات کی مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے جو رسول اللہ ﷺ سے کتب حدیث میں ماثور و منقول ہیں اور بلاشبہ وہ سب ہی بڑے بابرکت ہیں۔
Top