معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1335
عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي. اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي وَجِدِّي وَخَطَايَايَ وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي» (رواه البخارى ومسلم)
سید الاستغفار
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح عرض کیا کرتے تھے: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي" تا "وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي" (اے اللہ! میری خطا، میرے قصور معاف کر دے، اور (علم و معرفت کے تقاضے کے خلاف) جو نادانی کا کام میں نے کیا ہو اس کو معاف فرما دے اور اپنے جس معاملہ میں بھی میں نے تیرے حکم اور تیری رضا کی حد سے تجاوز کیا ہو اس کو بخش دے۔ اے میرے اللہ! میرے وہ گناہ بھی معاف فرما دے جو ہنسی مذاق میں مجھ سے سرزد ہو گئے ہوں اور وہ بھی معاف کر دے جو میں نے سوچ سمجھ کے اور سنجیدگی سے کئے ہوں۔ میرے مالک! میری وہ خطائیں بھی معاف کر دے جو بلا ارادہ مجھ سے سرزد ہو گئی ہوں، اور وہ بھی معاف فرما دے جو میں نے جان بوجھ کے ارادہ سے کی ہوں۔ اور (اے میرے مالک! تو جانتا ہے کہ) یہ سب طرح کی خطائیں میں نے کی ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اللہ اکبر! سید المرسلین محبوبِ رب العٰلمین ْ جو یقیناً معصوم تھے، اُن کے احساسات اپنے بارے میں یہ تھے، اور وہ اپنے کو سر تا سر خطاکار اور قصوروار سمجھتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح استغفار کرتے تھے۔ حق یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت ہو گفی وہ اتنا ہی زیادہ اپنے کو ادائے حق عبدیت کے بارے میں قصوروار سمجھے گا۔ "قریباں را بیش بود حیرانی"۔ رسول اللہ ﷺکے اس استغفار کے ایک ایک لفظ عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے، اور ہم امتیوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔
Top