معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1334
عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ " قَالَ: «وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ» (رواه البخارى)
سید الاستغفار
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:"سید الاستغفار" (یعنی سب سے اعلیٰ استغفار) یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرے: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اے اللہ! تو ہی میرا رب (یعنی مالک مولا) ہے، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا۔ میں تیرا بندہ ہوں اور جہاں تک مجھ عاجز و ناتواں سے ہو سکے گا تیرے ساتھ کئے ہوئے (ایمانی) عہد و میثاق اور (اطاعت و فرمانبرداری کے) وعدے پر قائم رہوں گا۔ تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل و کردار کے شر سے، میں اقرار کرتا ہوں کہ تو نے مجھے نعمتوں سے نوازا، اور اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے تیری نافرمانیاں کیں اور گناہ کئے۔ اے میرے مالک و مولا! تو مجھے معاف فرما دے اور میرے گناہ بخش دے، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس بندے نے اخلاص اور دل کے یقین کے ساتھ دن کے کسی حصے میں اللہ کے حضور میں یہ عرض کیا (یعنی ان کلمات کے ساتھ استغفار کیا) اور اسی دن رات شروع ہونے سے پہلے اس کو موت آ گئی تو وہ بلا شبہ جنت میں جائے گا اور اسی طرح اگر کسی نے رات کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہی عرض کیا اور صبح ہونے سے پہلے اس رات میں وہ چل بسا تو بلاشبہ وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
مندرجہ ذیل حدیث سے استغفار کے ایک کلمہ کو رسول اللہ ﷺ نے "سید الاستغفار" بتایا ہے، اور اس کی غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی ہے، اور بلاشبہ اپنے مضمون و مفہوم کے لحاظ سے بھی وہ ایسا ہی کلمہ ہے۔ تشریح ..... اس استغفار کی اس غیر معمولی فضیلت کا راز بظاہر یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ میں عبدیت کی روح بھری ہوئی ہے۔ سب سے پہلے عرض کیا گیا ہے: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، تو نے ہی مجھے وجود بخشا اور میں بس تیرا بندہ ہوں۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے کہ: وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ یعنی میں نے ایمان لا کے تیری عبادت و اطاعت کا جو عہد میثاق اور وعدہکیا ہے جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی کمزوری کا اعتراف کے ساتھ ایمانی عہد و میثاق کی تجدید ہے۔ اس کے آگے عرض کیا گیا ہے: أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ مجھ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں اور آئندہ ہوں، اس کے برے نتیجے سے اے میرے مالک و رب میں تیری پناہ کا طالب ہوں۔ اس میں اعترافِ قصور کے ساتھ اللہ کی پناہ بھی چاہی گئی ہے۔ اس کے بعد عرض کیا گیا ہے: أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي میں تیرے انعامات اور احسانات کا اور اپنی گناگاریوں اور خطاکاریوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ آخر میں عرض کیا گیا ہے: فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ میرے مالک و مولا! تو اپنے رحم و کرم سے میرے جرائم، میرے گناہ بخش دے، جرموں اور گناہوں کو بخشنے والا بس تو ہی ہے۔ حق یہ ہے کہ جس صاحبِ ایمان بندے کو وہ معرفت و بصیرت نصیب ہو جس کے ذریعے وہ اپنی اور اپنے اعمال کی حقیقت کو سمجھتا ہو، اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت اور اس کے حقوق کو بھی کچھ جانتا ہو تو وہ خود کو صرف قصوروار اور گناہگار اور خیر اور بھلائی کے معاملہ میں بالکل مفلس ار تہی مایہ محسوس کرے گا اور پھر اس کے دِل کی آواز اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی التجا یہی ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے اس استغفار میں محسوس ہوتی ہے۔ اس کو "سید الاستغفار" اسی خصوصیت کی وجہ سے کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچ جانے کے بعد آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والے ہر اُمتی کو چاہئے کہ وہ اس کا اہتمام کرے کہ ہر دن اور رات میں کم از کم ایک دفعہ ضرور وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ استغفار کر لیا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ہمارے استاذ حضرت مولانا سراج احمد صاحب رشیدیؒ پر، اب سے ۴۵ سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں ان ہی سے مشکوٰۃ شریف پڑھی تھی۔ جب سبق میں یہ حدیث آئی تو حضرت مولاناؒ نے پوری جماعت کو حکم دیا کہ یہ "سید الاستغفار" سب یاد کر لیں کل میں سب سے سنوں گا۔ چنانچہ اگلے دن قریب قریب سب طلباء سے سنا اور وصیت فرمائی کہ دن رات میں کم از کم ایک دفعہ اس کو ضرور پڑھ لیا کرو۔
Top