گناہوں کی سیاہی اور توبہ و استغفار سے اس کا ازالہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی اور بخشش کی التجا و استدعا کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے، اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے مزید گناہ کئے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ قلب پر چھا جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: یہی وہ زنگ اور سیاہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے: كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
(مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
تشریح
قرآن مجید میں ایک موقع پر بد انجام کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے "كَلَّا ۖ بَلْ ۜرَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ" جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آ گئی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہوں اور بدکرداریوں کی وجہ سے صرف کافروں ہی کے دل سیاہ نہیں ہوتے، بلکہ مسلمان بھی جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں بھی گناہ کی نحوست سے ظلمت پیدا ہوتی ہے، لیکن اگر وہ سچے دل سے توبہ و استغفار کر لے تو یہ سیاہی اور ظلمت ختم ہو جاتی ہے اور دل حسبِ سابق صاف اور نورانی ہو جاتا ہے، لیکن اگر گناہ کے بعد توبہ و استغفار نہ کرے یا کہ معصیت و نافرمانی ہی کے راستہ پر آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ ظلمت برابر بڑھتی رہتی ہے، یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتی ہے، اور کسی مسلمان کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے، اور اس کے قلب میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے۔ اعاذنا اللہ منہ