معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1304
عَنْ عَائِشَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَغْرَمِ وَالمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ» (رواه البخارى ومسلم)
دعوتِ استعاذہ
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ تا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ" (اے میرے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی، کاہلی سے اور انتہائی بڑھاپے سے (جو آدمی کو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے) اور قرضہ کے بوجھ سے، اور ہر گناہ سے۔ اے میرے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں دوزخ کے عذاب سے او ر دوزخ کے فتنہ سے اور فتنہ قبر سے، اور عذابِ قبر سے، اور دولت و ثروت کے فتنہ کے شر سے، اور مفلسی و محتاجی کے فتنہ کے شر سے اور فتنہ دجال کے شر سے۔ اے میرے اللہ! میرے گناہوں کے اثرات دھو دے اولے اور برف کے پانی سے اور میرے دل کو (گندے اعمال و اخلاق کی گندگیوں سے) اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اور میری اور گناہوں کے درمیان اتنی دوری پیدا کر دے جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دی ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس دعا میں علاوہ اور چیزوں کے "ھرم" یعنی بڑھاپے سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ عمر کی اس حد تک درازی کہ ہوش و حواس صحیح سالم رہیں (اور آخرت کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے) اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، لیکن ایسا بڑھاپا جو بالکل ہی اذکار رفتہ کر دے جس کو قرآن پاک میں "اَرْذَلُ الْعُمُرِ" فرمایا گیا ہے۔ ایسی ہی چیز ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگی جائے "ھرم" بڑھاپے کا وہی درجہ ہے۔ اس دعا میں "عذابِ نار" کے ساتھ "فتنہ نار" سے اور "عذابِ قبر" کے ساتھ "فتنہ قبر" سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ عذابِ نار سے مراد بظاہر دوزخ کا وہ عذاب ہے جو ان دوزخیوں کو ہو گا جو کفر و شرک جیسے سنگین جرائم کی وجہ سے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ اسی طرح عذابِ قبر سے مراد بظاہر قبر کا وہ عذاب ہے جو اسی طرح کے بڑے مجرموں کو قبر می ہو گا۔ لیکن جو ان سے کم درجہ کے مجرمین ہیں ان کو اگرچہ دوزخیوں کی طرح دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا اور قبر میں بھی ان پر درجہ اول کے ان مجرمین والا وہ سخت عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا، لیکن دوزخ اور قبر کی کچھ تکلیفوں سے ان لوگوں کو بھی گزرنا پڑے گا اور بس یہی سزا ان کے لئے کافی ہو گی۔ اس عاجز کے نزدیک "فتنہ نار" اور "عذابِ قبر" کے ساتھ اس "فتنہ نار" اور "فتنہ قبر" سے بھی پناہ چاہی اور اپنے عمل سے ہم کو بھی اس کی تلقین فرمائی ہے۔ دجال کا فتنہ بھی ان عظیم ترین فتنوں میں سے ہے جن سے رسول اللہ ﷺ بکثرت پناہ مانگتے تھے، اور اہلِ ایمان کو اس کی تلقین فرماتے تھے۔ اللہ تعالی دجالِ اکبر کے فتنہ سے (جس کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے) اور ہر دجالی فتنہ سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اس دعا میں دولت مندی کے فتنہ سے اور اس کے ساتھ فقر و محتاجی کے فتنہ سے بھی اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ دولت و ثروت بذاتِ خود کوئی بری چیز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اگر اس کا حق ادا کرنے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی توفیق ملے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنی دولت ہی سے وہ مقام پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اعلان فرمایا کہ: "عثمان اس کے بعد جیسا بھی عمل کریں ان پر کوئی عتاب نہ ہو گا اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی (مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمَلَ بَعْدَ مَرَّتَيْنِ) (1) " اسی طرح فقر کے ساتھ اگر صبر و قناعت نصیب ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے فقر ہی کی زندگی پسند فرمائی، اور فقر اور اہلِ فقر کے بڑے فضائل بیان فرمائے۔ لیکن اگر بدقسمتی سے دولت مندی و خوش حالی تکبر و غرور پیدا کرے اور مال و دولت کے صحیح استعمال کی توفیق نہ ملے تو پھر وہ قارونیت ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسی طرح اگر فقر و محتاجی کے ساتھ صبر و قناعت نہ ہو اور اس کی وجہ سے آدمی ناکردنی کرنے لگے تو وہ خدا کا ایک عذاب ہے، اور اسی کے برے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا" (محتاجی اور مفلسی آدمی کو کفر تک بھی پہنچا سکتی ہے) اس دعا میں غنا اور فقر (دولت مندی اور ناداری)کے جس شر و فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے وہ یہی ہے، اور وہ ایسی ہی چیز ہے کہ اس سے ہزار بار پناہ مانگی جائے۔ اس دعا کے آخر میں گناہوں کے اثرات دھونے کی اور دل کی صفائی کی اور گناہوں سے بہت دور کئے جانے کی جو دعا کی گئی ہے وہ اگچہ بظاہر مثبت دعاؤں میں سے ہے، لیکن غور کیا جائے تو وہ بھی ایک طرح کہ سلبی دعا ہے اور گویا استعاذہ ہی ہے۔
Top