معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1256
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ» (رواه مسلم)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: "اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي تا رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ " (اے اللہ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور سلامتی کا دار و مدار ہے اور میری دنیا بھی درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے، اور میری آخرت بھی درست فرما دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور ہمیشہ رہنا ہے، اور میری زندگی کو خیر اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے، اور میری موت کو ہر شر سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
عرض کیا گیا تھا کہ کتبِ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور اور منقول ہیں اگر ان کو مضامین اور موقع محل کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو وہ تین قسم کی ہیں: ایک وہ جن کا تعلق نماز سے ہے، دوسری وہ جن کا تعلق خاص اوقات یا مواقع اور حالات سے ہے تیسری وہ جن کا تعلق نہ نماز سے ہے نہ خاص اوقات یا مواقع سے بلکہ وہ عمومی قسم کی ہیں۔ پہلی دو قسم کی دعائیں درج کی جا چکیں، تیسری قسم کی اب پیش کی جا رہی ہے۔ ان میں زیادہ تر مضامین کے لحاظ سے ہمہ گیر اور جامع قسم کی ہیں، اسی لئے ائمہ حدیث نے اپنی مؤلفات میں ان دعاؤں کو "جامع الدعوات" کے زیرِ عنوان درج کیا ہے۔ یہ دعائیں امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص عطیہ اور بیش بہا تحفہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم امتیوں کو قدر شناسی اور تشکر کی اور ان دعاؤں کو اپنے دل کی آواز اور دھڑکن بنا لینے کی توفیق دے۔ جس بندے کو یہ دولت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث ذیل میں پڑھئے: تشریح ..... جیسا کہ ظاہر ہے یہ بہت سی جامع دعا ہے، اس کا پہلا جز یہ ہے: اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي اے اللہ! میری دینی حالت درست فرما دے جس پر میری خیریت اور میری ہر چیز کی سلامتی اور تحفظ کا دار و مدار ہے دراصل دین ہی وہ چیز ہے اگر وہ درست اور سلامت ہو تو آدمی اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لعنت اور اس کے غضب و عذاب سے مامون و محفوظ ہو کر اس کے لطف و کرم کا مستحق ہو جاتا ہے اور اسلامی قانون کی رو سے اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو ایک خاص درجہ کی حرمت و عصمت حاصل ہو جاتی ہے اس لئے اسی پر آدمی کی سلامتی ٰخیریت اور صلاح و فلاح کا دار و مدار ہے۔ اسی چیز کو اس دعاء نبوی ﷺ میں "عِصْمَةُ أَمْرِي" کہا گیا ہے۔ دین کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا ایمان و یقین صحیح ہو، اس کے افکار و جذبات اور اعمال و اخلاق درست ہوں، وہ زندگی کے ہر شعبہ میں نفس کی خواہش کے بجائے اللہ کے احکام پر چلنے والا ہو، اور ظاہر ہے کہ اس کا دار و مدار اللہ کی توفیق پر ہے، اس لئے ہر بندہ مومن کے دل کی اولین مانگ اور پکار یہی ہونا چاہئے۔ اس دعا کا دوسرا جز ہے: وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي اور میری دنیا درست فرما دے جس میں مجھے یہ زندگی گزارنا ہے۔ دنیا کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی رزق وغیرہ کی ضرورتیں حلال اور جائز راستوں سے پوری ہوتی رہیں۔ بلاشبہ ہر مومن بندے کی دوسری مانگ اللہ تعالیٰ سے یہی ہونا چاہئے۔ تیسرا جز دعا کا یہ ہے: وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي اور میری آخرت اچھی بنا دے، جہاں مجھے لوٹ کے جانا اور ہمیشہ رہنا ہے۔ اگرچہ دین کی درستی کا لازمی نتیجہ آخرت کی صلاح و فلاح ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے مستقل طور سے آخرت کی درستی کی یہ دعا کی۔ ایک تو غالباً اس لئے کہ آخرت کی غیر معمولی اہمیت کا یہ حق ہے، دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دینی لحاظ سے اچھی حالت ہونے کے باوجود بندے کو آخرت کے بارے میں مطمئن اور بےفکر نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن مجید میں اچھے بندوں کی شان یہی بتائی گئی ہے: "وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ" (المومنون: ۶۰) (1) چوتھا اور پانچواں جز دعا کا یہ ہے: وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ اور زندگی کو میرے نیکی اور بھلائی میں اضافہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے، اور موت کو ہر شر اور برائی سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے۔ ہر آدمی کو اس دنیا میں اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے مرنا یقینی ہے۔ اللہ کی دی ہوئی عمر سے آدمی نیکی بھی کما سکتا ہے اور بدی بھی، وہ اس کے لئے سعادت میں ترقی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور شقاوت میں اضافہ کا ذریعہ بھی، اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ دین و دنیا اور آخرت کی صلاح و فلاح کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے تھے کہ اے اللہ! میری حیات کو خیر اور سعادت میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ بنا دے یعنی مجھے توفیق دے کہ میں عمر کے لمحات اور زندگی کے اوقات کو تیری رضا والے کاموں میں صرف کر کے سعادت کے راستہ میں آگے بڑھتا چلوں، اور میری موت کو شرور و فتن کی اذیتوں سے راحت کا ذریعہ بنا دے، یعنی مستقبل کے جو شر اور فتنے میرے لئے اذیت کا باعث ہو سکتے ہیں تیرے حکم سے آنے والی میری موت ان سے میری حفاظت کا ذریعہ بن کر ان سے مجھے راحت دے دے۔ یہ دعا بھی "جوامع الکلم" اور دریا بکوزہ کی بہترین مثال ہے، الفاظ کتنے مختصر اور مضامین کتنے وسیع!
Top