معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1160
عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: صَلَّى عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ بِالْقَوْمِ صَلَاةً أَخَفَّهَا، فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوهَا، فَقَالَ: أَلَمْ أُتِمَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: أَمَا إِنِّي دَعَوْتُ فِيهَا بِدُعَاءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِ: «اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي، وَأَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَكَلِمَةَ الْإِخْلَاصِ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ، وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ، وَأَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بِالْقَضَاءِ، وَبَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَفِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِينَ» (رواه النسائى)
قعدہ اخیرہ کی بعض دعائیں
قیس بن عباد (تابعی) سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسر ؓ نے کچھ ہلکی اور مختصر نماز پڑھائی تو لوگوں نے اس پر کچھ چہ میگوئیاں کیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا بات ہے؟ کیا میں نے رکوع اور سجدے (اور دوسرے ارکان) پوری طرح ادا نہیں کئے؟" لوگوں نے کہا: "یہ بات تو نہیں، لیکن ہم نے محسوس یہی کیا کہ آپ نے (اس وقت) بہت ہلکی نماز پڑھی۔" حضرت عمارؓ نے فرمایا: "میں نے تو رکوع و سجود اور دوسرے ارکان پوری طرح ادا کرنے کے علاوہ نماز میں (اچھی خاصی طویل) وہ خاص دعا بھی کی تھی جو رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی کیا کرتے تھے (اور وہ یہ ہے): "اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ الخ" (اے میرے اللہ! تو عالم الغیب ہے، اور تجھے اپنی مخلوق پر پوری قدرت حاصل ہے۔ تو اپنے اس علم غیب اور اس قدرت مطلقہ سے مجھے اس وقت تک دنیا میں رکھ جب تک تیرے علم میں میری زندگی میرے لئے باعث خیر ہو اور مجھے اس وقت دنیا سے اٹھا لے جب اٹھایا جانا میرے لئے بہتر ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں تیرا خوف اور تیری خشیت خلوت میں اور جلوت میں، اور مانگتا ہوں تجھ سے بےلاگ اور خدا لگتی مخلصانہ بات کرنے کی توفیق رضامندی کی حالت میں اور سخت ناراضی کی حالت میں (یعنی مجھے توفیق دے کہ کسی کی رضامندی یا ناراضی کی وجہ سے حق و انصاف کے خلاف کوئی بات نہ کہوں) اور اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں میانہ روی، تنگدستی میں اور خوش حالی میں اور میں سائل ہوں رضا بالقضا کی صفت کا، اور سوال کرتا ہوں تجھ سے آخرت کے جاودانی عیش و آرام کا اور آنکھووں کی اس ٹھنڈک کا جو کبھی منقطع نہ ہو، اور تجھ سے مانگتا ہوں مرنے کے بعد ٹھنڈی اور چین و سکون کی زندگی اور تیرے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا اشتیاق، بغیر اس کے کہ کوئی ضرر رساں کیفیت پیدا ہو، اور بغیر اس کے کہ کسی گمراہ کن فتنہ میں ابتلا ہو۔ اے میرے اللہ! ہم کو ایمان کی زینت سے آراستہ فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ اور دوسرے کے لئے ذریعہ ہدایت بنا۔ (سنن نسائی)

تشریح
حضرت عمار بن یاسر ؓ کی اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعائیں نماز میں کس موقع پر کرتے تھے لیکن دوسری حدیثوں کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ یہ دعائیں نماز کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے کرتے تھے، نماز میں اس قسم کی دعاؤں کا خاص موقع و محل یہی ہے۔ اس موقع کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی درخواست پر جو دعا ان کو تعلیم فرمائی تھی: "اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا الخ" وہ معارف الحدیث کی جلد سوم میں ذکر کی جا چکی ہے اور اسی کی تشریح میں وہ دلائل اور قرائن لکھے جا چکے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دعاؤں کا موقع اور محل تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے ہے۔
Top