معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1151
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ إِحْدَى ثَلَاثٍ، إِمَّا يُعَجِّلُ لَهُ دَعْوَتَهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَدْفَعَ عَنْهُ مِنَ السَّوْءِ مِثْلَهَا "قَالُوْا اِذَا نُكْثِرُ قَالَ اللهُ اَكْثَرُ. (رواه احمد)
دعا قبول ہونے کا مطلب اور اس کی صورتیں
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو مومن بندہ کوئی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور نہ قطع رحمی ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا ہوتی ہے: یا تو جو اس نے مانگا ہے وہی اس کو ہوہاتھ کے ہاتھ عطا فرما دیا جاتا ہے، یا اس کی دعا کو آخرت میں اس کا ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے یا آنے والی کوئی مصیبت اور تکلیف اس دعا کے حساب میں روک دی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: جب بات یہ ہے (کہ ہر دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے) تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ (مسند احمد)

تشریح
بہت سے لوگ ناواقفیت سے قبولیتِ دعا کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ بندے کا علم بےحد ناقص ہے، بلکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے وہ ظلوم و جہول ہے۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے دولتمندی نعمت ہے، اور بہت سے ہیں جن کے لئے دولت فتنہ ہے۔ بہت سے بندے ہیں جن کے لئے حکومت اور اقتدار قربِ خداوندی کا وسیلہ ہے۔ اور حجاج اور ابنِ زیاد کی طرح بہت سے ہیں جن کے لئے حکومتی اقتدار خدا سے دوری اور اس کے غضب کا سبب بن جاتا ہے۔ بندہ نہیں جانتا کہ کیا میرے لئے بہتر ہے اور کیا مریے لئے فتنہ اور زہر ہے۔ اس لئے بسا اوقات وہ ایسی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جو اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی، یا اس کا عطا کرنا حکمتِ الہی کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ جو حکیم و دانا ہے، یہ بات اس کے علم و حکم کے خلاف ہے کہ ہر بندہ جا مانگے وہ اس کو ضرور عطا فرما دے۔ دوسری طرف اس کی کریمی کا یہ تقاضا ہے کہ جب اس کا بندہ ایک محتاج اور مسکین کی طرح اس کے حضور میں ہاتھ پھیلائے اور دعا کرے تو وہ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ دعا کرنے والے بندے کو محروم نہیں لوٹاتا کبھی تو اس کو وہی عطا فرما دیتا ہے جو دعا میں اس نے مانگا اور کبھی اس کی دعا کے عوض آخرت کی بیش بہا نعمتوں کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور اس طرح اس کی یہ دعا اس کے لئے ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اسباب و مسببات کا جو سلسلہ ہے اس کے حساب سے اس دعا کرنے والے بندے پر کئی آفت اور مصیبت نازل ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اس دعا کے نتیجے میں اس آنے والی بلا اور مصیبت کو روک دیتا ہے۔ بہرحال دعا کے قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دعا رائیگاں نہیں جاتی، اور دعا کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے مطابق مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اس کو ضرور نوازتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اللہ کا خزانہ لا انتہا اور غیر فانی ہے اگر سارے بندے ہر وقت اس سے مانگیں اور وہ ہر ایک کے لئے عطا فرمانے کا فیصلہ کرے تو اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ مستدرک حاکم میں حضرت جابر ؓ کی ایک ھدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی ہوں گی ان دعاؤں کے حساب میں جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں عطا فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا: يَالَيْتَهُ لَمْ يُعَجَّلْ لَهُ شَيْئٌ مِنْ دِعَائِهِ. (كنز العمال: ص 57، جلد 2) اے کاش! میری کوئی بھی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور ہر دعا کا پھل مجھے یہیں ملتا۔
Top