معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1145
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسُ دَعْوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ حَتَّى يَنْتَصِرَ وَ دَعْوَةُ الْحَاجِّ حَتَّى يَصْدِرَ وَ دَعْوَةُ الْمُجَاهِدِ حَتَّى يُفْقَدَ وَ دَعْوَةُ الْمَرِيْضِ حَتَّى يَبْرَأَ وَ دَعْوَةُ الْأَخِ لِأَخِيْهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ , ثُمَّ قَالَ: وَأَسْرَعُ هَذِهِ الدَّعْوَاتِ إِجَابَةُ دَعْوَةُ الْأَخِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ. (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
وہ دُعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پانچ آدمیوں کی دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔ مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے لے۔ اور حج کرنے والے کی دعا جب تک وہ لوٹ کے اپنے گھر واپس نہ آئے اور راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا جب تک وہ شہید ہو کے دنیا سے لاپتہ نہ ہو جائے، اور بیمار کی دعا جب تک وہ شفایاب نہ ہو اور ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لئےغائبانہ دُعا۔ یہ سب بیان فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اور ان دعاؤں میں سب سے جلدی قبول ہونے والی دعا کسی بھائی کے لئے غائبانہ دعا ہے۔ " (دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
دُعا اگر حقیقۃً دعا ہو اور خود دعا کرنے والے کی ذات اور اس کے اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو قبولیت میں مانع ہوتی ہے تو دعا عموماً قبول ہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن کے بعض خاص احوال یا اعمال ایسے ہوتی ہیں کہ ان کی وجہ سے رحمتِ الٰہی خصوصیت سے متوجہ ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کا خصوصی استحقاق پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حدیث میں جن پانچ آدمیوں کی دعاؤں کا ذکر ہے ان میں سے مظلوم کی دعا اور غائبانہ دعا کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور حج اور جہاد ایسے اعمال ہیں کہ جب تک بندہ ان میں مشغول ہو وہ گویا اللہ کی بارگاہ میں ہے اور اس سے قریب تر ہے۔ اس طرح مرد مومن کی بیماری گناہوں سے اس کی تطہیر کا ذریعہ اور قربِ الہی کی راہ میں اس کی غیرمعمولی ترقی کا وسیلہ ہوتی ہے۔ اور بیماری کے بستر پر وہ ولایت کی منزلیں طے کرتا ہے اس لئے اس کی دعا بھی خاص طور پر قبول ہوتی ہے۔
Top