معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1127
عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ رَبَّكُمْ حَيِيٌّ كَرِيمٌ، يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا» (رواه الترمذى وابوداؤد)
دعا کی مقبولیت اور نافعیت
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ ان کو خالی واپس کرے "۔ (کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے)۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
دعاو بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں معروضہ کی پیشی ہے، اور وہ مالکِ کل اور قادر مطلق ہے، چاہے تو اسی لمحہ دعا کرنے والے بندے کو وہ عطا فرما دے جو وہ مانگ رہا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ ظلوم و جہال بندے کی خواہش کی ایسی پابندی کرے بلکہ بسا اوقات خود اس بندے کی مصلحت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کی مانگ جلد پوری نہ ہو۔ لیکن انسان کے خمیر میں جو جلد بازی ہے اس کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ جو میں مانگ رہا ہوں وہ مجھے فوراً مل جائے، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ مایوس ہو کر دعا کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ انسان کی وہ غلطی ہے جس کی وجہ سے وہ قبولیتِ دعا کا مستحق نہیں رہتا اور گویا اس کی یہ جلد بازی ہی اس کی محرومی کا باعث بن جاتی ہے۔
Top