معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1120
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ» ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} (رواه احمد والترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه)
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دعا عین عبادت ہے"۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سند کے طور پر یہ آیت پڑھی: "وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ" (تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو اور مانگو میں قبول کروں گا اور تم کو دوں گا، جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ روگردانی کریں گے ان کو ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جانا ہو گا)۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن کمالات و امتیازات سے نوازا ان میں سب سے بڑا امتیاز و کمال وعبدیت کاملہ کا مقام ہے۔ عبدیت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی تذلل، بندگی و سرافگندگی عاجزی و لاچاری اور محتاجی و مسکینی کا پورا پورا اظہار، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ سب کچھ اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے، اس کے دَر کی فقیری و گدائی۔ اس سب کے مجموعہ کا عنوان مقامِ عبدیت ہے، جو تمام مقامات میں اعلیٰ و بالا ہے اور بلاشبہ سیدنا حضرت محمدﷺ اس صفت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں کامل ترین اور سب پر فائق ہیں، اور اسی لئے افضل مخلوقات اور اشرف کائنات ہیں۔ قاعدہ ہے کہ ہر چیز اپنے مقصد کے لحاظ سے کامل یا ناقص سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً گھوڑا جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے یعنی سواری اور تیز رفتاری، اس کو بڑھیا یا گھٹیا اسی مقصد کے پیمانے سے سمجھا جائے گا۔ اسی طرح گائے یا بھینس کا جو مقصد ہے یعنی دوددھ کا حاصل ہونا اس کی قدر و قیمت دودھ کی کمی یا زیادتی ہی کے حساب سے لگائی جائے گی۔ وقس علیٰ ہذا۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اس کے پیدا کرنے والے نے عبدیت اور عبادت بتایا ہے: " وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون " اس لئے سب سے افضل و اشرت انسان وہی ہو گا جو اس مقصد میں سب سے اکمل و فائق ہو۔ پس سیدنا حضرت محمدﷺ چونکہ کمالِ عبدیت میں سب سے فائق ہیں اس لئے آپ ﷺ افضلِ مخلوقات اور اشرفِ کائنات ہیں اور اسی وجہ سے قرآنِ مجید جہاں جہاں آپ ﷺ کے بلند ترین خصائص و کمالات اور اللہ تعالیٰ کے آپ ﷺ پر خاص الخاص انعامات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں معزز ترین لقب کے طور پر آپ ﷺ کو عبد ہی کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ اسراء میں فرمایا گیا ہے: "سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ" پھر اسی سفر معراج کی آخری منزلوں کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ النجم میں فرمایا گیا: "فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى" اور سب سے بڑی نعمت و دولت قرآنِ حکیم کی تنزیل کا ذکر کرتے ہوئے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا گیا: "تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ" اور سورہ کہف میں فرمایا گیا: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ" حاصلِ کلام یہ ہے کہ بندوں کے مقامات میں سب سے بلند عبدیت کا مقام ہے م اور سیدنا حضرت محمد ﷺ اس مقام کے امام یعنی اس وصف خاص میں سب پر فائق ہیں۔ اور دعا چونکہ عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت (بشرطیکہ حقیقی دعا ہو) بندے کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوتا ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ کے احوال و اوصاف میں غالب ترین وصف اور حال دُعا کا ہے، اور امت کو آپ کے ذریعہ روحانی دولتوں کے جو عظیم خزانے ملے ہیں ان میں سب سے بیش قیمت خزانہ ان دُعؤں کا ہے جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ سے خود آپ ﷺ نے کیں یا امت کو ان کی تلقین فرمائی۔ ان میں سے کچھ دعائیں ہیں جن کا تعلق خاص حالات یا اوقات اور مخصوص مقاصد و حاجات سے ہے، اور زیادہ تر وہ ہیں جن کی نوعیت عمومی ہے۔ ان دُعاؤں کی قدر و قیمت اور افادیت کا ایک عام عملی پہلو تو یہ ہے کہ ان سے دعا کرنے اور اللہ سے اپنی حاجتیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ معلوم ہوتا ہے اور اس باب میں وہ رہنمائی ملتی ہے جو کہیں سے نہیں مل سکتی۔ اور ایک دوسرا خاص عملی اور اور عرفانی پہلو یہ ہے کہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روحِ پاک کو اللہ تعالیٰ سے کتنی گہری اور ہمہ وقتی وابستگی تھی اور آپ کے قلب پر اس کا جلال و جمال کس قدر چھایا ہوا تھا، اور اپنی اور ساری کائنات کی بےبسی اور لاچاری اور اس مالک الملک کی قدرتِ کاملہ اور ہمہ گیر رحمت و ربوبیت پر آپ کو کس درجہ یقین تھا کہ گویا یہ آپ کے لئے غیب نہیں شہود تھا۔ حدیث کے ذخیرے میں رسول اللہ ﷺ کی جو سینکڑوں دعائیں محفوظ ہیں ان میں اگر تفکر کیا جائے تو کھلے طور پر محسوس ہو گا کہ ان میں سے ہر دعا معرفت الہی کا شاہکار اور آپ کے کمالِ روحانی و خدا آشنائی اور للہ تعالیٰ کے ساتھ آپ ﷺ کلے صدقِ تعلق کا مستقل برہان ہے، اور اس لحاظ سے ہر ماثور دُعا بجائے خود آپ کے ایک روشن معجزہ ہے۔صلی اللہ علیہ والہ وبارک وسلم۔ اس عاجز راقم سطور کا دستور ہے کہ جب کبھی پڑھے لکھے اور سمجھ دار غیر مسلموں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا تعارف کرانے کا موقع ملتا ہے تو آپ ﷺ کی کچھ دعائیں ان کو ضرور سناتا ہوں۔ قریب قریب سو فیصد تجربہ ہے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ آپ ﷺ کی دعاؤں سے متاثر ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کے کمالِ خدا رسی و خدا شناسی میں ان کو شبہ نہیں رہتا۔ اس تمہید کے بعد پہلے چند وہ حدیثیں پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کی برکتیں بیان فرمائی ہیں، یا دعا کے آداب بتائے ہیں، یا اس کے بارے میں کچھ ہدایتیں دی ہیں۔ ان کے بعد ایک خاص ترتیب کے ساتھ وہ حدیثیں درج کی جائیں گی جن میں وہ دعائین مذکور ہیں جو مختلف موقعوں پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کیں، یا امت کو جن کی تلقین فرمائی۔ تشریح ..... اصل حدیث صرف اتنی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "دعا عین عبادت ہے۔" غالباً حضور ﷺ کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بندے جس طرح اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے دوسری محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں اسی طرح کی ایک کوشش دُعا بھی ہے، جو اگر قبول ہو گئی تو بندہ کامیاب ہو گیا اور اس کو کوشش کا پھل مل گیا، اور اگر قبول نہ ہوئی تو وہ کوشش بھی رائیگاں گئی۔ بلکہ دعا کی ایک مخصوص نوعیت ہے اور وہ یہ کہ وہ حصولِ مقصد کا ایک مقدس عمل ہے جس کا پھل اس کو آخرت میں ضرور ملے گا۔ جو آیت آپ ﷺ نے سند کے طور پر تلاوت فرمائی اس سے یہ بات صراحۃً معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دُعا عین عبادت ہے۔ آگے درج ہونے والی دوسری حدیث میں دُعا کو عبادت کا مغز اور جوہر فرمایا گیاہے۔
Top