معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1070
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
کلمات ذِکر اور ان کی فضیلت و برکت
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پہنچے ایک بیوی کے پاس اور ان کے آگے کھجور کی گٹھلیاں تھیں، (یا سنگریزے تھے) وہ ان گٹھلیوں (یا سنگریزوں) پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "میں تم کو نہ نہ بتا دوں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ آسان ہے۔ (یا فرمایا کہ اس سے افضل ہے) وہ یہ ہے کہ تم اس طرح کہو: سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ. سبحان اللہ ساری مخلوق کی تعداد کے مطابق۔ سبحان اللہ ساری زمینی مخلوق کی تعداد کے مطابق۔ سبحان اللہ زمین و آسمان کے درمیان کی ساری مخلوقات کی تعداد کے مطابق۔ جس کو وہ ابد الآباد تک پیدا فرمانے والا ہے۔ اور (اللهُ أَكْبَرُ) اسی طرح، اور (الْحَمْدُ لِلَّهِ) اسی طرح اور (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ) اسی طرح اور (لا حول ولا قوة الا بالله) اسی طرح۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
ان دونوں حدیثوں سے معلو ہوا کہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ایک طریقہ جس طرح کثرتِ ذکر ہے اسی طرح ایک آسان تر طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ ایسے الفاظ شامل کر دئیے جائیں جو کثرتِ تعداد پر دلالت کرنے والے ہوں۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں میں حضور ﷺ نے بتلایا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض حدیثوں میں کثرتِ ذکر کی ترغیب دی ہے۔ اور قریب ہی وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں آپ ﷺ نے روزینہ سو دفعہ "سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" کہنے والے کو گناہوں کے معاف کئے جانے کی خوشخبری سنائی ہے۔ اس لئے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت کردہ اس حدیث، اور اس سے پہلے والی حضرت جویریہؓ کی حدیث سے کثرتِ ذکر کی نفی یا باپسندیدگی سمجھنا ہرگز صحیح نہ ہو گا۔ ان دونوں حدیثوں کا منشاء اور مدعا دراصل یہ ہے کہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ایک زیادہ آسان طریقہ یہ بھی ہے اور خاص کر وہ لوگ جو اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ذِکر اللہ کے لئے زیادہ وقت فارغ نہ کر سکیں، وہ اس طرح سے بھی بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ: "جس شخص کا مقصد اپنے باطن اور اپنی زندگی کو ذکر کے رنگ میں رنگنا ہو اس کو کثرت ذکر کا طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور جس کا مقصد ذکر سے صرف ثوابِ اُخروی حاصل کرنا ہو اس کو ایسے کلمات ذکر کا انتخاب کرنا چاہئے جو معنوی لحاظ سے زیادہ فائق اور سیع تر ہوں جیسے کہ ان دونوں حدیثوں میں مذکور ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عہدِ نبویﷺ میں تسبیح کا رواج تو نہیں تھا لیکن بعض حضرات اس مقصد کے لئے گٹھلیاں یا سنگریزے استعمال کرتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اور تسبیح کے دانوں کے ذریعے شمار میں کوئی فرق نہیں، بلکہ تسبیح دراصل اس کی ترقی یافتہ اور سہل شکل ہے۔ جن حضرات نے تسبیح کو بدعت قرار دیا ہے بلاشبہ انہوں نے شدت اور غلو سے کام لیا ہے۔
Top