معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1057
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةً، وَإِنَّ صِقَالَةَ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَا مِنْ شَىْءٍ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ " قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلَا الْجِهَادُ، إِلَّا أَنْ يَضْرِبَ بِسَيْفِهِ حَتَّى يَنْقَطِعَ» (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کرتے تھے کہ: "ہر چیز کی صفائی کے لئے کوئی صیقل ہے، اور قلوب کی صیقل (یعنی ان کی صفائی کا خاص مسالہ) ذِکراللہ ہے، اور اللہ کے عذاب سے بچانے اور نجات دلانے میں اللہ کا ذکر جس قدر موثر ہے اتنی کوئی دوسری چیز موثر نہیں۔" لوگوں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ہاں! وہ جہاد بھی عذاب خداوندی سے نجات دلانے میں ذِکر کے برابر مؤثر نہیں جس کا کرنے والا ایسی جانبازی سے جہاد کرے کہ تلوار چلاتے چلاتے اس کی تلوار بھی ٹوٹ جائے۔ (دعوات کبیر للبیہقی)"

تشریح
اصل حقیقت یہی ہے کہ سارے اعمالِ صالحہ کے مقابلہ میں "ذکر اللہ" افضل اور عنداللہ محبوب تر ہے (وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ) بندے کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب اور اس کی وجہ سے جو سعادت اور شرف ذکر کے وقت حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے عمل کے وقت نہیں ہوتا، بشرطیکہ یہ ذکر عظمت اور محبت و خشیت اور دل کی توجہ کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: فَاذْكُرُوْنِيْۤ اَذْكُرْكُمْ (تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا) اور حدیث قدسی: "أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَكَرَنِي...... وَأَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ" (میں اپنے ذکر کرنے والے بندے کے ساتھ اور اس کا ہم نشین رہتا ہوں)۔۔۔۔۔ اور میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے لب میرا ذکر کرنے سے حرکت کرتے ہیں تو بس اس کے بالکل پاس اور ساتھ ہوتا ہوں) بہرحال قرآن و حدیث کے ان واضح نصوص کا مدعا یہی ہے کہ تمام اعمالِ صالحہ میں ذکر اللہ ہی افضل اور عنداللہ محبوب تر اور اس کے قرب و رضا کا خاص الخاص وسیلہ ہے۔ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ اس ذکر میں اور نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ اس قسم کی عبادات سب داخل ہیں۔
Top