معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1053
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ. (رواه البخارى ومسلم)
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا معاملہ بندے کے ساتھ اس کے یقین کے مطابق ہے۔ اور میں اس کے بالکل ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے جی میں اس طرح یاد کرے کہ کسی اور کو خبر بھی نہ ہو تو میں بھی اس کو اسی طرح یاد کروں گا۔ اور اگر وہ دوسرے لوگوں کے سامنے مجھے یاد کرے تو میں ان سے بہتر بندوں کی جماعت میں اس کا ذکر کروں گا (یعنی ملائکہ کی جماعت میں اور ان کے سامنے)"۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے پہلے جملے (أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي) کا مطلب یہ ہے کہ بندہ میرے بارے میں جیسا یقین قائم کرے گا تو میرا معاملہ اس کے ساتھ بالکل اسی کے مطابق ہو گا۔ مثلاً وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رحم اور کرم کا یقین کرے تو اللہ تعالیٰ کو رحیم کریم ہی پائے گا۔ اسی لئے بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا یقین کرے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔ حدیث کے آخری حصہ میں جو فرمایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مجھے خلوت میں اس طرح یاد کرتا ہے کہ اس کے اور میرے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی تو میری عنایت بھی اس کے ساتھ اسی طرح مخفی ہوتی ہے۔ ؎ میانِ عاشق و معشوق رمزیستکراماً کاتبین را ہم خبر نیست اور جب بندہ جلوت میں اور دوسروں کے سامنے میرا ذکر کرتا ہے (جس میں دعوت اور ارشاد اور وعظ و نصیحت بھی داخل ہے) تو اس بندہ کے ساتھ اپنے تعلق اور اس کی قبولیت کا ذکر میں فرشتوں کے سامنے بھی کرتا ہوں، جس کے بعد وہ بندہ فرشتوں میں مقبول و محبوب ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد اس دنیا میں بھی اس کو قبولِ عام اور محبوبیت عامہ حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی سنت اللہ کا ظہور ہے کہ بہت سے عرفاء کاملین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے خاص تعلق کا اخفا کرتے ہیں اگرچہ اللہ کے ہاتھ اُن کو مقبولیت کا خاص الخاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ لیکن دنیا میں ان کو پہچانا ہی نہیں جاتا، اور جن کا تعلق باللہ اور دعوتِ الی اللہ ظاہر اور جلی قسم کی ہوتی ہے ان کو دنیا میں بھی مقبولیت امہ حاصل ہو جاتی ہے۔
Top