معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1050
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللهَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ. (رواه ومسلم)
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کے کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ملائکہ مقربین میں کا ذکر فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں "کتاب الطہارۃ" کے بالکل شروع میں "حجۃ اللہ البالغہ" کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کا یہ ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ: "اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھے یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ فلاح و سعادت کی شاہراہ کی طرف دعوت دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی (جس کا نام شریعت ہے) اگرچہ اس کے بہت سے ابواب ہیں، اور ہر باب کے تحت سینکڑوں ہزاروں احکام ہیں لیکن اپنی اس بے پناہ کثرت کے باوجود وہ سب بس ان چار اصولی عنوانوں کے تحت آ جاتے ہیں: ۱۔ طہارت ۲۔ اخبات ۳۔ سماحت ۴۔ عدالت یہ لکھنے کے بعد شاہ صاحبؒ نے ان چاروں میں سے ہر ایک کی حقیقت بیان کی ہے جس کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ بلا شبہ ساری شریعت ان ہی چار شعبوں میں منقسم ہے۔ جلد سوم میں (کتاب الطہارۃ) کے شروع میں حضرت شاہ صاحبؒ کے اس سلسلہ کلام کا صرف وہ حصہ تلخیص کے ساتھ نقل کیا گیا تھا جس میں انہوں نے طہارت کی حقیقت بیان فرمائی تھی۔ اخبات کی حقیقت کے بارے میں جو کچھ انہوں نے فرمایا ہے اس کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ: "تحیر اور خوف و محبت کی کیفیات اور رضا جوئی و عنایت طلبی کے جذبہ کے ساتھ ساتھ اللہ ذوالجلال والجبروت کے حضور میں ظاہر و باطن سے اپنی بندگی و نیاز مندی اور محتاجی و رحمت طلبی کا اظہار ہے۔" اسی کا دوسرا معروفِ عام عنوان عبادت ہے، اور وہی انسانوں کی تخلیق کا خاص مقصد ہے۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ حضرت شاہ صاحبؒ نے سعادت کے ان چاروں شعبوں میں "حجۃ اللہ البالغہ" مقصد دوم میں ابواب الاحسان کے ذیل میں بھی کلام فرمایا ہے، وہاں فرماتے ہیں کہ: "ان میں سے پہلی چیز یعنی طہارت کی تحصیل کے لئے وضو اور غسل وغیرہ کا حکم دیا گیا ہے، اور دوسری بنیات یعنی اخبات کی تحصیل کا خاص وسیلہ نماز اور اذکار اور قرآن مجید کی تلاوت ہے"۔ (1) بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت ذکر اللہ ہی اخبات کا مخصوص وسیلہ ہے اور نماز اور تلاوت اور اسی طرح دُعا بھی اس کی خاص خاص شکلیں ہیں۔ بہرحال نماز اور ذکر اللہ اور تلاوتِ کلام مجید، ان سب کی غرض و غایت اس مبارک صفت کی تحصیل و تکمیل ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اخبات کے عنوان سے ادا کیا ہے، اس لئے یہ سب ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں۔ نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کے ارشادات و معمولات اللہ کی توفیق سے اس سلسلہ کی تیسری جلد میں پیش کئے جا چکے ہیں۔ اذکار و دعوات اور تلاوتِ قرآن مجید سے متعلق حدیثیں اب اس پانچویں جلد میں پیش کی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے اپنے اس گنہگار بندے کو اور پڑھنے والے حضرات کو ان احادیث پاک پر عمل کرنے اور پورا نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے "ذکر اللہ" اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے نماز، تلاوتِ قرآن اور دُعا و استغفار وغیرہ سب ہی کو شامل ہے، اور یہ سب اس کی خاص خاص شکلیں ہیں۔ لیکن مخصوص عرف و اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس، توحید و تمجید، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی صفات کمال کے بیان اور دھیان کو "ذکر اللہ" کہا جاتا ہے اور جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے صراحۃً معلوم ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور انسان کی روحانی ترقی اور ملاءِ اعلیٰ سے اس کے ربط کا خاص الخاص وسیلہ ہے۔ شیخ ابن القیم نے "مدارج السالکین" میں ذکر اللہ کی عظمت و اہمیت اور اس کی برکات پر ایک بڑا بصیرت افروز اور روح پرور مضمون لکھا ہے، اس کے ایک حصہ کا خلاصہ ہم یہاں بھی درج کرتے ہیں۔ آگے درج ہونے والی احادیث میں ذِکراللہ کی جو عظمت بیان ہو گی اس مضمون کے مطالعہ کے بعد اس کا سمجھنا ان شاء اللہ آسان ہو گا۔ فرماتے ہیں: قرآن مجید میں ذِکراللہ کی تاکید و ترغیب کے ہم کو مندرجہ ذیل دس عنوانات ملتے ہیں: ۱۔ بعض آیات میں اہل ایمان کو تاکید کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے، مثلاً ارشاد فرمایا گیا ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا (الاحزاب۳۳: ۴۱، ۴۲) اے ایمان والو! اللہ کو بہت یاد کیا کرو، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِيْفَةً اور اپنے رب کا ذکر کرو اپنے جی میں (یعنی دل سے) گِڑگِڑا کر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ۔ ۲۔ بعض آیات میں اللہ کو بھولنے اور اس کی یاد سے غافل ہونے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے۔ یہ بھی ذِکراللہ کی تاکید ہی کا ایک عنوان ہے۔ مثلاً ارشاد ہے: وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (اعفار ۷: ۲۰۵) اور نہ ہونا تم غفلت والوں میں سے دوسری جگہ ارشاد ہے: وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ (الحشر ۵۹: ۱۹) اور تم ان میں سے نہ ہو جاؤ، جنہوں نے اللہ کو بُھلا دیا پھر (اس کی پاداش میں) اللہ نے ان کو ان کے نفس بھلا دئیے (اور خدا فراموشی کے نتیجہ میں وہ خود فراموش ہو گئے) ۳۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ فلاح اور کامیابی اللہ کے ذکر کی کثرت کے ساتھ وابستہ ہے۔ ارشاد ہے: وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ الجمعہ ۶۲: ۱۰) اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو، پھر تم فلاح و کامیابی کی امید کر سکتے ہو۔ ۴۔ بعض آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ذکر کی تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ذکر کے صلہ میں ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا خاص معاملہ کیا جائے گا اور ان کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ایمان والے بندوں اور بندیوں کے چند دوسرے ایمانی اوصاف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ١ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے اس کے بندے اور اس کی بندیاں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں اور بندیوں کے لئے تیار کر رکھی ہے خاص بخشش اور عظیم ثواب۔ ۵۔ اسی طرح بعض آیات میں آگاہی دی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی بہاروں اور لذتوں میں منہمک اور مست ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جائیں گے وہ ناکام اور نامراد رہیں گے۔ مثلا سورہ منافقون میں ارشاد فرمایا گیا ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ اے ایمان والو! تمہاری دولت اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے، اور جو لوگ اس غفلت میں مبتلا ہوں گے وہ بڑے گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے۔ یہ تینوں عنوان بھی ذِکراللہ کی تاکید اور ترغیب کے لئے بلاشبہ بڑے مؤثر ہیں۔ ۶۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جو بندے ہمیں یاد کریں گے ہم ان کویاد کریں گے اور یاد رکھیں گے۔ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِيْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (بقرہ: ۲: ۱۵۲) میرے بندو! تم مجھے یاد کرو، میں تم کو یاد رکھوں گا اور میرے احسان مانو اور ناشکری نہ کرو۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔ بندے کی اس سے بڑی سعادت و کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری کائنات کا خالق و مالک اس کو یاد کرے اور یاد رکھے۔ ۷۔ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے ذکر کو ہر چیز کے مقابلہ میں عظمت و فوقیت حاصل ہے اور اس کائنات میں وہ ہر چیز سے بالاتر اور بزرک تر ہے۔ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ (عنکبوت ع: ۵) "اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرک تر ہے" بےشک اگر بندے کو عرفان نصیب ہو تو اللہ کا ذکر اس کے لئے اس ساری کائنات سے عظیم تر ہے۔ ۸۔ بعض آیات میں بڑے اونچے درجہ کے اعمال کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اختتام پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے گویا ذکر اللہ ہی کو ان اعمال کا "خاتمہ" بنانا چاہئے۔ مثلا نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے: فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ جب تم نماز ادا کر لو تو اللہ کا ذکر کرو (ہر حال میں) کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے۔ اور خاص کر جمعہ کی نماز کے بارے میں ارشاد ہے: فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو (اجازت ہے) کہ تم (مسجد سے نکل کر اپنے کام کاج کے سلسلہ میں) زمین میں چلو پھرو، اور اللہ کا فضل تلاش کرو، اور اس حالت میں بھی اللہ کا خوب ذکر کرو، پھر تم فلاح کی امید کر سکتے ہو۔ اور حج کے بارے میں ارشاد ہے: فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا پھر جب تم اپنے مناسک ادا کر کے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو جیسے کہ تم (تفاخر کے طور پر) اپنے باپ داداؤں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ نماز اور حج جیسی اعلیٰ درجہ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد بھی بندہ کے لئے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ ان سے فراغت کے بعد بھی اس کے دل میں اور اس کی زبان پر اللہ کا ذکر ہونا چاہئے اور اسی کو ان اعمال کا خاتمہ بننا چاہئے۔ ۹۔ بعض آیات میں ذکراللہ کی ترغیب اس عنوان سے دی گئی ہے کہ دانش مند اور صاحب بصیرت بندے وہی ہیں جو ذکراللہ سے غافل نہیں ہوتے۔ جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جو ذکراللہ سے غافل ہوں وہ عقل و بصیرت سے محرورم ہیں۔ مثلاً سورہ آل عمرا کے آخری رکوع میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ (آل عمران: ۳: ۱۹۰، ۱۹۱) یقیناً زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کی تبدیلیوں سے کھلی نشانیاں ہیں ان ارباب دانش کے لئے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں (اور اس سے غافل نہیں ہوتے)۔ ۱۰۔ بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونچے سے اونچے اعمالِ صالحہ کا مقصد اور ان کی روح ذکراللہ ہے۔ مثلاً نماز کے بارے میں ارشاد ہے: اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (طہ ۲۰: ۱۴) میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ اور مناسک کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَالسَّعْىُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ. بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی، اور جمرات کی رمی یہ سب چیزیں ذکراللہ ہی کے لئے مقرر ہوئی ہیں۔ اور جہاد کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اے ایمان والو! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے کسی دشمن فوج سے تو ثابت قدم رہو (اور قدم جما کے جنگ کرو) اور اللہ کا ذکر کرو، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہو گے۔ اور ایک حدیث قدسی میں ہے: إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَهُوَ مُلاَقٍ قِرْنَهُ میرا بندہ مکمل بندہ وہ ہے جو اپنے حریف مقابل سے جنگ کے وقت بھی مجھے یاد کرتا ہے۔ قرآن حدیث کے ان نصوص سے ظاہر ہے کہ نماز سے لے کر جہاد تک تمام اعمال صالحہ کی روح اور جان ذکراللہ ہے۔ اور یہی ذکر اور دل و زبان سے اللہ کی یاد وہ پروانہ ولایت ہے جس کو عطا ہو گیا وہ واصل ہو گیا اور جس کو عطا نہیں ہوا وہ دور اور مہجور رہا۔ یہ ذکراللہ والوں کے قلوب کی غذا اور ذریعہ حیات ہے، اگر وہ ان کو نہ ملے تو جسم ان قلوب کے لئے قبور بن جائیں۔ اور ذکر ہی سے دلوں کی دنیا کی آبادی ہے، اگر دلوں کی دنیا اس سے خالی ہو جائے تو بالکل ویرانہ ہو کر رہ جائے اور ذکر ہی ان کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ روحانیت کے رہزنوں سے جنگ کرتے ہیں اور وہی ان کے لیے وہ ٹھنڈا پانی ہے جس سے وہ اپنے باطن کی آگ بجھاتے ہیں اور وہی ان کی بیماریوں کی وہ دوا ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو ان کے دل گرنے لگیں اور وہی وسیلہ رابط ہے ان کے اور ان کے علام الغیوب رب کے درمیان۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎ اِذَا مَرِضْنَا تَدَاوَيْنَا بِذِكْرِكُمْفَنَتْرُكُ الذِّكْرَ اَحْيَانًا فَنَتَكَّسُ جب ہم بیمار پڑ جاتے ہیں تو تمہاری یاد سے اپنا علاج کرتے ہیں اور جب کسی وقت یاد سے غافل ہو جائیں تو مرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بینا آنکھوں کو روشنی اور بینائی سے منور کیا ہے اسی طرح ذکر کرنے والی زبانوں کو ذکر سے مزین رمایا ہے، اسی لئے اللہ کی یاد سے غافل زبان اس آنکھ کی طرح ہے جو بینائی سے محروم ہے اور اس کان کی طرح ہے جو شنوائی کی صلاحیت کھو چکا ہے، اور اس ہاتھ کی طرح ہے جو مفلوج ہو کر بیکار ہو گیا ہے۔ ذکراللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جو حق جل جلالہ اور اس کے بندے کے درمیان کھلا ہوا ہے اور اس سے بندہ اس کی بارگاہ عالی تک پہنچ سکتا ہے اور جب بندہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے ؎ فنسيان ذكر الله موت قلوبهم واجسامهم قبل القبور قبور وارواحهم فى وحشة من جسومهموليس لهم حتى النشور نشور اللہ کی یاد سے غافل ہو جانا اور فراموش کر دینا ان کے قلوب کی موت ہے، اور ان کے جسم زمین والی قبروں سے پہلے ان کے مردہ دلوں کی قبریں ہیں۔ اور ان کی روحیں سخت وحشت میں ہیں ان کے جسموں سے اور ان کے لئے قیامت اور حشر سے پہلے زندگی نہیں۔(ملخصا من كلام الشيخ ابن القيم فى مدارج السالكين) ناچیز راقم سطور عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا اقتباس میں ذکراللہ کی تاکید و ترغیب کے جن دس عنوانات کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن مجید میں ان کے علاوہ بھی بعض عنوانات سے ذکراللہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا گیا ہے کہ: "قلوب کو (یعنی اللہ سے رابطہ رکنے والوں کے دلوں اور ان کی روحوں کو) اللہ کے ذکر ہی سے چین و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔" اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (جان لو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین اور سکون ملتا ہے)۔ ذکراللہ کی تاخیر اور برکت کے بارے میں ایک دوسرے ربانی محقق اور صرفی صاحب "سترصيع الجواهر الملكيه" کے چند فقروں کا ترجمہ بھی پڑھ لیا جائے۔ آگے درج ہونے والی اس باب کی احادیث کے سمجھنے میں ان شاء اللہ اس سے بھی خاص مدد ملے گی۔ فرماتے ہیں: "قلوب کو نورانی بنانے اور اوصاف ردیہ کو اوصاف حمیدہ میں تبدیل کر دینے میں سب طاعات و عبادات سے زیادہ زوداثر اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے" خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ بلاشبہ نماز گندی اور ناشائستہ باتوں سے روکتی ہے اور یہ یقینی حقیقت ہے کہ اللہ کا ذکر بہت ہی بڑی چیز ہے۔ اور اکابر نے فرمایاہے کہ: "ذکر کا عمل قلب کو صاف کرنے میں بالکل ویسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ تانبے کو صاف کرنے اور مانجھنے میں بال۔ اور باقی دوسری عبادات کا عمل قلوب کی صفائی کے بارے میں ویسا ہے جیسا کہ تانبے کے صاف کرنے میں صابن کا عمل۔" (ترصیع الجواہر المکیہ) اس تمہید کے بعد ذکراللہ کی عظمت اور برکات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پڑھئے: تشریح ..... اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ اللہ کے کچھ بندوں کے ایک جگہ جمع ہو کر ذکر کرنے کی خاص برکات ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کی شرح میں فرمایا ہے: "اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں کا جمع ہو کر ذکر وغیرہ کرنا رحمت و سکینت اور قرب ملائکہ کا خاص وسیلہ ہے"۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ص ۷۰، جلد:۲) اس حدیث میں اللہ کا ذکر کرنے والے بندوں کے لیے چار خاص نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے اللہ کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رحمت الٰہی ان کو اپنے آغوش اور سایہ میں لے لیتی ہے، اور ان دونوں نعمتوں کے لازمی نتیجہ کے طور پر تیسری نعمت ان کو یہ حاصل ہوتی ہے کہ ان کے قلب پر "سکینت" نازل ہوتی ہے، جو عظیم ترین روحانی نعمتوں میں سے ہے۔ یہاں سکینت سے مراد خاص درجہ کا قلبی اطمینان اور روحانی سکون ہے جو اللہ کے خاس بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی عطیہ کے طور پر نصیب ہوتا ہے، اسی کو اہلِ سلوک "جمعیت قلبی" بھی کہتے ہیں۔ اس دولت اور نعمت کا صاحبِ سکینہ کو احساس اور شعور بھی ہوتا ہے۔اور ذاکر بندوں کو ملنے والی چوتھی نعمت جس کا اس حدیث میں سب سے آخر میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین کے حلقہ میں ان ذاکر بندوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ: "دیکھو آدمؑ کی اولاد میں سے میرے یہ بھی بندے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا نہیں غائبانہ ہی ایمان لائے ہیں، اس کے باوجود محبت و خشیت کی کیسی کیفیت اور کیسے ذوق و شوق اور کیسے سوز و گداز کے ساتھ میرا ذکر کر رہے ہیں۔ بلاشبہ مالک الملک کا اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کا اس طرح ذکر فرمانا وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے آگے کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محروم نہ رکھے۔" فائدہ ...... اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملا کہ اگر اللہ کا کوئی ذاکر بندہ اپنے قلب و باطن میں "سکینت" کی کیفیت محسوس نہ کرے (جو ایک محسوس کی جانے والی چیز ہے) تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ ابھی وہ ذِکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر یہ نعمتیں موجود ہیں، یا اس کی زندگی میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو آثارِ ذکر کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ بہرحال اسے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ ربِ کریم کے وعدے برحق ہیں۔
Top