معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 992
حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ ، فَرُحِلَتْ لَهُ ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي ، فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ : « إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ، فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ [ص : 890] ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ ، كِتَابُ اللهِ ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي ، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟ » قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، فَقَالَ : بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ ، يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ « اللهُمَّ ، اشْهَدْ ، اللهُمَّ ، اشْهَدْ » ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ أَذَّنَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ نے اپنی ناقہ قصواء پر کجاوا کسنے کا حکم دیا، چنانچہ اس پر کجاوا کس دیا گیا، آپ اس پر سوار ہو کر وادی (وادی عرنہ) کے درمیان آئے، اور آپ نے اونٹنی کی پشت پر ہی سے لوگوں کو خطبہ دیا جس میں فرمایا: " لوگوں! تمہارے خون اور تمہارا مال تم پر حرام ہیں (یعنی ناحق کسی کا خون کرنا اور ناجائز طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے) بالکل اسی طرح جس طرح کہ آج یوم العرفہ کے دن ذی الحجہ کے اس مبارک مہینہ میں، اپنے اس مقدس شہر میں (تم ناحق کسی کا خون کرنا اور کسی کا مال لینا حرام جانتے ہو) ..... کوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں (یعنی اسلام کی روشنی کے دور سے پہلے تاریکی اور گمراہی کے زمانہ کی ساری باتیں اور سارے قصے ختم ہیں) میرے دونوں دقدموں کے نیچے دفن اور پامال ہیں (میں اس کے خاتمہ اور منسوخی کا اعلان کرتا ہوں) اور زمانہ جاہلیت کے خون بھی ختم ہیں معاف ہیں (یعنی اب کوئی مسلمان زمانہ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے گا)، اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانے کے ایک خون ربیعہ ابن الحارث بن عبدالمطلب کے فرزند کے خون کے ختم اور معاف کئے جانے کا اعلان کرتا ہوں جو قبیلہ بنی سعد کے ایک گھر میں دودھ پینے کے لیے رہتے تھے اور ان کو قبیلہ ہذیل کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ (1) (ہذیل سے اس خون کا بدلہ لینا ابھی بھی باقی تھا لیکن اب میں اپنے خاندان کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ اب یہ قصہ ختم، بدلہ نہیں لیا جائے گا) اور زمانہ جاہلیت کے سارے سودی مطالبات (جو کسی کے کسی کے ذمہ باقی ہیں وہ سب بھی) ختم اور سوخت ہیں (اب کوئی مسلمان کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کرے گا) اور اس باب میں بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کے سودی مطالبات میں سے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات کے ختم اور سوخت ہونے کا اعلان کرتا ہوں (اب وہ کسی سے اپنا سودی مطالبہ وصول نہیں کریں گے) ان کے سارے سودی مطالبات آج ختم کر دئیے گئے ..... اور اے لوگو! عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں خدا سے ڈرو، اس لئے کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم اور اس کے قانون سے اس کے ساتھ تمتع تمہارے لئے حلال ہوا ہے، اور تمہارا خاص حق ان پر یہ ہے کہ جس آدمی کا گھر میں آنا اور تمہاری جگہ تمہارے بستر پر بیٹھنا تم کو پسند نہ ہو وہ ا س کو اس کا موقع نہ دیں ..... لیکن اگر وہ یہ غلطی کریں تو تم (تنبیہ اور آئندہ سد باب کے لیے اگر کچھ سزا دینا مناسب اور مفید سمجھو) ان کو کوئی خفیف سی سزا دے سکتے ہو .... اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ اپنے مقدور اور حیثیت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو ..... اور میں تمہارے لیے وہ سامان ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی پیروی کرتے رہے تو پھر کبھی تم گمراہ نہ ہو ..... وہ ہے " کتاب اللہ " .... اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ میں نے تم کو اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام پہنچائے یا نہیں)۔ تو بتاؤ! کہ وہاں تم کیا کہو گے اور کیا جواب دو گے؟ ..... حاضرین نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کے احکام ہم کو پہنچا دئیے اور رہنمائی اور تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا .... اس پر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اس سے اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: اللهُمَّ، اشْهَدْ، اللهُمَّ، اشْهَدْ اللهُمَّ، اشْهَدْ!!! یعنی اے اللہ! تو گواہ رہ، کہ میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہنچا دئیے اور تیرے بندے اقرار کر رہے ہیں ..... اس کے بعد (آپ ﷺ کے حکم سے) حضرت بلال ؓ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، اور ظہر کی نماز پڑھائی، اس کے بعد پھر بلال ؓ نے اقامت کہی اور آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی۔

تشریح
یہ معلوم ہے کہ اس دن (یعنی اس سال وقوف عرفہ کے دن) جمعہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے زوال آفتاب کے بعد پہلے مندرجہ بالا خطبہ دیا، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں (ظہر ہی کے وقت میں) ساتھ ساتھ بلا فصل پڑھیں۔ حدیث میں صاف ظہر کا ذکر ہے، جس سے ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن جمعہ کی نماز نہیں پڑھی، بلکہ اس کے بجائے ظہر پڑھی اور جو خطبہ آپ نے دیا وہ جمعہ کا خطبہ نہیں تھا بلکہ یوم العرفات کا خطبہ تھا ..... جمعہ نہ پڑھنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ عرفات کوئی آبادی اور بستی نہیں ہے، بلکہ ایک وادی اور صحرا ہے، اور جمعہ بستیوں اور آبادیوں میں پڑھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ یوم العرفہ کے اس خطبہ میں آپ ﷺ نے جو ہدایات دیں اس وقت اور اس مجمع میں انہی چیزوں کا اعلان اور تبلیغ و تلقین ضروری اور اہم تھی .... خطبہ کے بعد آپ ﷺ نے ظہر و عصر ایک ساتھ ظہر ہی کے وقت ادا فرمائیں اور درمیان میں سنت یا نفل کی دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں .... امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وقوف عرفات کے دن یہ دونوں نمازیں اسی طرح پڑھی جائیں گی، اور اسی طرح مغرب و عشاء اس دن مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت میں ایک ساتھ پڑھی جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ آگے معلوم ہو گا ..... اس دن ان نمازوں کا صحیح طریقہ اور ان کے صحیح اوقات یہی ہیں ..... اس کی ایک حکمت تو یہی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا یہ امتیاز ہر خاص و عام کو معلوم ہو جائے کہ آج کے دن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کے اوقات میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے .... اور دوسری حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس دن کا اصل وظیفہ جو ذکر اور دعا ہے اس کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ بندہ فارغ رہے، اور ظہر سے مغرب تک بلکہ عشاء تک نماز کی بھی فکر نہ ہو۔ آپ ﷺ نے یوم العرفات کے اس خطبہ میں جو اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے آپ کی حیات طیبہ کا سب سے اہم خطبہ کہا جا سکتا ہے۔ سب سے آخری بات اپنی وفات ار جدائی کے قرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمائی کہ: " میں تمہارے لیے ہدایت و روشنی کا وہ کامل و مکمل سامان چھوڑ کر جاؤں گا جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے بشرطیکہ تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی روشنی میں چلتے رہے، اور وہ اللہ کی مقدس کتاب قرآ ن مجید " ..... اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مرض وفات کے آخری دنوں میں جب کہ شدت مرض کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف تھی آپ نے بطور وصیت کے ایک تحریر لکھانے کا جو خیال ظاہر کیا تھا جس کے بارے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: " تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو گے "۔ اس میں آپ کیا لکھانا چاہتے تھے۔ حجۃ الوداع کے اس اہم خطبہ سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کتاب اللہ سے وابستگی اور اس کی پیروی کی وصیت لکھانا چاہتے تھے۔ آپ اس اہم خطبہ میں بھی بتا چکے تھے یہ شان کتا اللہ کی ہے، اور چونکہ حضرت عمر ؓ اس حقیقت سے آشنا تھے اور اللہ نے موقع پر بات کہنے کی جبرؤت بھی دی تھی اس لیے انہوں نے اس موقع پر یہ رائے ظاہر کی کہ آپ کی مسلسل تعلیم و تربیت سے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ حیثیت کتاب اللہ کی ہے اس لیے اس سخت تکلیف کی حالت میں وصیت لکھنے لکھانے کی زحمت کیوں فرمائی جائے، ہمیں آپ کا پڑھایا ہواسبق یاد ہے اور یاد رہے گا۔ حسبنا كتاب الله.
Top