احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ (ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد) جب آپ مسجد کے پاس ہی ناقہ کی رکاب میں پاؤں رکھتے اور ناقہ آپ کو لیکر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو اس وقت آپ احرام کا تلبیہ پڑھتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
صحابہ کرام کی روایات اور ان کے اقوال اس بارے میں مختلف ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع مین احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت اور کس جگہ پڑھا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان (جیسا کہ اس حدیث میں بھی مذکور ہے) یہ ہے کہ: ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد آپ وہیں اپنی ناقہ پر سوار ہوئے، اور ج ب ناقہ آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت آپ نے پہلی دفعہ احرام کا تلبیہ پڑھا اور گویا اس وقت سے آپ محرم ہوئے، اور بعض دوسرے صحابہ کا بیان ہے کہ جب آپ ناقہ پر سوار ہو کر کچھ آگے بڑھے اور مقام " بیداء " پر پہنچے (جو ذو الحلیفہ کے بالکل قریب کسی قدر بلند میدان سا تھا) تو اس وقت آپ نے پہلا تلبیہ کہا۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھا تو اسی وقت ناقہ پر سوار ہونے سے پہلے آپ نے پہلا تلبیہ پڑھا .... سنن ابی داؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مشہور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیر کا ایک بیان مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے صحابہ کرام کے اختلاف کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ: " اصل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد ذو الحلیفہ میں دو گانہ احرام پڑھنے کے بعد متصلاً پہلا تلبیہ پڑھا تھا، لیکن اس کا علم صرف ان چند لوگوں کو ہوا جو اس قت آپ ﷺ کے قریب وہاں موجود تھے اس کے جب آپ وہیں ناقہ پر سوار ہوئے اور ناقہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت پھر آپ نے تلبیہ پڑھا اور ناقہ پر سوار ہونے کے بعد یہ آپ کا پہلا تلبیہ تھا تو جن لوگوں نے یہ تلبیہ آپ سے سنا اور پہلا نہیں سنا تھا، انہوں نے سمجھا کہ پہلا تلبیہ آپ نے ناقہ پر سوار ہو کر پڑھا۔ پھر جب ناقہ چل دی اور مقام بیداء پر پہنچی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، تو جن لوگوں نے پہلا اور دوسرا تلبیہ آپ سے نہیں سنا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے پہلا تلبیہ اس وقت پڑھا جب آپ بیداء پر پہنچے "۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس بیان سے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔