معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 981
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « نَهَى النِّسَاءَ فِي إِحْرَامِهِنَّ عَنِ القُفَّازَيْنِ وَالنِّقَابِ ، وَمَا مَسَّ الْوَرْسُ وَالزَّعْفَرَانُ مِنَ الثِّيَابِ ، وَلْتَلْبَسْ بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَحَبَّتْ مِنْ أَلْوَانِ الثِّيَابِ مُعَصْفَرًا أَوْ خَزًّا أَوْ حُلِيٍّ أَوْ سَرَاوِيلَ أَوْ قَمِيصٍ أَوْ خُفٍّ » (رواه ابوداؤد)
احرام کا لباس
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے ہیں عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور ان کپڑوں کے استعمال سے جن کو زعفران یا ورس لگی ہو اور ان کے بعد اور ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں کسمبی کپڑا ہو یا ریشمی، اور اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ احرام کی حالت میں قمیض، شلوار وغیرہ سلے کپڑے پہننے کی ممانعت صرف مردوں کو ہے، عورتوں کو پردہ کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے اور موزے پہننے کی بھی اجازت ہے، ہوں دستانے پہننے کی ان کو بھی ممانعت ہے اور منہ پر نقاب ڈالنے کی بھی ممانعت ہے .... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے سامنے بھی اپنے چہرے بالکل کھلے رکھیں۔ حدیث میں ممانعت چہرے پر باقاعدہ نقاب ڈالنے کی ہے، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو اپنی چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہیے .... سنن ابی داؤد میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت ہے، فرماتی ہیں کہ: " ہم عورتیں حج میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں (تو احرام کی وجہ سے ہم چہروں پر نقاب نہیں ڈالتی تھیں) جب ہمارے سامنے سے مرد گزرتے تو ہم اپنی چادر سر کے اوپر سے لٹکا لیتی تھیں اور اس طرح پردہ کر لیتی تھیں، پھر جب وہ مرد آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول دیتی تھیں "۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ احرام کی حالت میں عورتوں کو نقاب کے استعمال کی ممانعت ہے، لیکن جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو تو چادر سے یا کسی اور چیز سے ان کو آڑ کر لینی چاہئے۔
Top